خیبر پختونخوا حکومت نے کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے اور گھریلو تشدد کے خلاف نئے قانون کے فوری نفاذ کے لیے ضلعی پروٹیکشن کمیٹیوں کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔
صوبائی وزیر برائے سماجی بہبود، خصوصی تعلیم اور ویمن امپاورمنٹ ہاشم انعام اللہ خان نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ ان کمیٹیوں کی صدارت خواتین رکن صوبائی اسمبلی کریں گی، اور ان کا کام گھریلو تشدد اور کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کرنے کے معاملات کو حل کرنا ہوگا۔
اگر کسی خاتون رکن صوبائی اسمبلی کی خدمات حاصل نہ ہوئیں تو ان کمیٹیوں کی صدارت ڈپٹی کمشنر کے سپرد کی جائے گی جبکہ کمیٹی میں سول سوسائٹی، سرکاری عہدیداروں، دانشوروں اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز میں سے دو اراکین اُن کے ساتھ ہوں گے۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کے لیے لازمی ہوگا کہ مہینے میں ایک بار اس کمیٹی کا اجلاس طلب کرے اور معاملات کو جلد از جلد نمٹائے۔ کمیٹیوں کے حوالے سے نوٹیفکیشن جلد از جلد جاری کر دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کمیٹیوں کا بنیادی کردار مفاہمتی ہوگا اور یہ فریادی اور جواب دہندہ کے مسائل سنے گی اور اس کا حل نکالے گی۔ فریقین رضامند نہ ہوئے تو معاملہ ضلعی سیشن جج یا ایڈیشنل سیشن جج کو بھیجا جائے گا، جو 60 دن کے اندر اس معاملے کو نمٹائے گا۔ اگر فریقین عدالت کے فیصلے پر بھی رضامند نہیں ہوتے تو وہ اس فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر سکیں گے۔
نئے قانون کے تحت مجرم کو پانچ سال تک قید اور جرمانے کی یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ عدالت ان مقدمات میں عبوری فیصلہ بھی دے سکتی ہے۔ جبکہ عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی پر 1 سال قید اور 3 لاکھ روپے تک کا جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔
ہاشم انعام اللہ نے کہا کہ بچوں پر ہر قسم کے مظالم کے خلاف بھی جلد ایک قانون اسمبلی میں لایا جائے گا اور اس پر کڑی سزائیں تجویز کی جائے گی۔
اس کے علاوہ سابق قبائلی علاقوں میں سماجی بہبود، خصوصی تعلیم اور عورتوں کو بااختیار بنانے کے لیے ایک ارب روپے کا منصوبہ بھی شروع کیا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت ماضی میں دہشت گردی سے متاثر ہونے والے ان افراد کو اپنا کاروبار کرنے کی سہولت دی جائے گی تاکہ وہ ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ اس پروگرام کے تحت 4 لاکھ روپے تک کا قرضہ آسان اقساط اور شرائط پر دیا جائے گا۔
جواب دیں