بدھ کو کملا ہیرس امریکی تاریخ کی پہلی خاتون خاتون، پہلی سیاہ فام اور پہلی جنوبی ایشیائی نژاد خاتون کی حیثیت سے امریکا کی نائب صدر بن گئیں۔ اس طرح انہوں نے وہ مقام حاصل کر لیا کہ جس کو حاصل کرنے کی امریکی تاریخ میں کئی خواتین نے کوشش کی۔
امریکا میں صدر اور نائب صدر بننے کی کوشش کرنے والی خواتین کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو زیادہ تر گفتگو کا محور 20 ویں صدی کے اواخر اور 21 ویں صدی کے اوائل کی خواتین کا ذکر ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا میں اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچنے کے لیے خواتین کی جدوجہد کی داستان بہت طویل ہے۔
غلامی کی مخالف اور خواتین کو ووٹ کا حق دینے کی حامی لوکریشیا موٹ وہ پہلی خاتون تھیں کہ جنہوں نے نائب صدر کا عہدہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہیں 1848ء میں لبرٹی پارٹی نے ٹکٹ دیا تھا۔ اسی سال موٹ اور ان کی ساتھی ایلزبتھ کیڈی اسٹینٹن نے خواتین کے حقوق کے لیے اُس پہلے کنونشن کا انتظام کیا تھا، جسے اب ‘سینیکا فالز کنونشن’ کہا جاتا ہے۔
پھر 1872ء میں وکٹور ووڈ ہل پہلی خاتون بنیں کہ جنہوں نے صدارت کے عہدے تک پہنچنے کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش کی۔ انہیں ایکوئل رائٹس پارٹی نے نامزدگی دی تھی، لیکن انتخابات کے وقت ووڈ ہل کی عمر صرف 33 سال تھی۔ جبکہ صدر بننے کے لیے کم از کم 35 سال کا ہونا ضروری ہے۔
اس کے بعد خواتین ایوانِ صدر تک پہنچنے کے لیے جدوجہد کرتی رہیں یہاں تک کہ ہلیری کلنٹن کے صدر کے انتخابات لڑنے تک 13 خواتین ایسا کر چکی تھیں، جن میں سے چند معروف خواتین یہ ہیں:
شارلین مچل: پہلی سیاہ فام خاتون جنہوں نے 1968ء میں صدر کے لیے عہدے کے لیے انتخاب لڑا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کی امیدوار تھیں۔
شرلی چیشولم: پہلی سیاہ فام خاتون کے جنہیں 1972ء میں کسی بڑی پارٹی کی جانب سے انتخاب لڑنے کا موقع ملا۔ چیشولم ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار تھیں۔
پیٹسی منک: پہلی ایشیائی نژاد امریکی خاتون کہ جنہوں نے کسی بڑی پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ منک نے 1972ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار بننے کے لیے چیشولم کا مقابلہ کیا تھا۔
دو خواتین امریکا کی سب سے بڑے جماعتوں کے لیے نائب صدارت کی امیدوار بن چکی ہیں:
جیرالڈین فیرارو 1984ء کے انتخاب کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نائب صدر کے عہدے کی امیدوار تھیں، جبکہ والٹر مونڈیل صدر کے عہدے کے لیے۔ انتخابات ری پبلکن پارٹی کے رونالڈ ریگن نے جیتے۔
پھر 2008ء کے انتخابات میں ری پبلکن پارٹی نے سارا پالین کو نائب صدر کا امیدوار قرار دیا تھا، جبکہ صدر کے لیے جان میک کین امیدوار تھے جنہیں براک اوباما کے ہاتھوں شکست ہوئی۔
بہرحال، 2016ء میں ڈیموکریٹک پارٹی نے سابق خاتونِ اوّل ہلیری کلنٹن کو کسی اہم سیاسی جماعت کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار بنا دیا۔ انہوں نے ووٹ تو زیادہ حاصل کیے لیکن الیکٹورل ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں گئے جو امریکا کے 45 ویں صدر بن گئے۔
2019ء میں سینیٹر کملا ہیرس نے حیران کن انداز میں نائب صدارت کی امیدوار بنیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی میں ابتدائی صدارتی انتخاب میں ریکارڈ چھ خواتین شریک ہوئیں کہ جن میں دو غیر سفید فام تھیں جبکہ چار غیر سفید فام مرد بھی اس کا حصہ تھے۔ بالآخر نومبر 2020ء میں کملا ہیرس ایوانِ صدر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں، یعنی صدارت اور نائب صدارت کی امیدوار تو بہت آئیں، لیکن 172 سال میں کملا ہیرس وہ پہلی خاتون بنیں جو ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
اپنے انتخاب کے بعد 7 نومبر 2020ء کو ایک خطاب میں کملا ہیرس نے کہا تھا کہ میں اس عہدے پر پہلی خاتون ضرور ہوں، لیکن آخری نہیں۔
اب نظام میں ایسی تبدیلیوں اور اصلاحات کا وقت آ چکا ہے کہ جن میں خواتین کو صدارت اور نائب صدارت کے حصول کے لیے دوبارہ صدیوں طویل جدوجہد نہ کرنی پڑے، بلکہ یہ نظام خواتین کو اس طرح قبول کرے، اور ان کی حوصلہ افزائی کرے، جیسے مردوں کی کرتا ہے۔
جواب دیں