حکومت پاکستان نے حال ہی میں فوری ڈجیٹل پیمنٹ کا نظام ‘راست’ متعارف کروایا ہے جس کے ساتھ ہی ملک ڈجیٹل معیشت کے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ ایسے اقدامات کا مقصد مالیاتی شمولیت کو تحریک دینا اور خاص طور پر معاشرے کے پسماندہ طبقات، خاص طور پر خواتین، کو بینکاری کی جدید اور آسان سہولیات فراہم کرنا اور ان کے لیے رقوم کی ادائیگی اور وصولیابی کو سہل بنانا ہے۔
بینک دولت پاکستان کے مطابق ‘راست’ تین مراحل میں شروع کیا جائے گا کہ جو 2022ء کے اوائل میں تکمیل کو پہنچے گا۔
اس کے ذریعے تاجر، کاروبار، عام لوگ، مالیاتی ٹیکنالوجی سے وابستہ ادارے اور سرکاری اداروں کو انٹرنیٹ، موبائل فونز اور ایجنٹوں کے ذریعے فوری ادائیگی کرنے اور پیمنٹ وصول کرنے کی سہولت حاصل ہوگی۔
اس کے لیے بینک دولت پاکستان اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیش نے کئی سال تک تعاون کیا ہے اور عالمی بینک، برطانیہ، اقوامِ متحدہ اور کار انداز فاؤنڈیشن کی مدد سے ‘راست’ کو عملی صورت دی گئی جس کا ہدف خواتین کو باضابطہ معیشت میں شامل کرنے کی تحریک دینا بھی ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب نجی شعبے میں ‘ڈجیٹل کیش ٹرانسفر سسمٹز’ موجود ہیں، جن کے لیے بینک اکاؤنٹس کی ضرورت ہی نہیں تو ‘راست’ کی کیا ضرورت؟ دراصل راست پہلا پروگرام ہوگا جو سرکاری اور مالیاتی اداروں کو منسلک کرے گا۔
راست کے نمایاں فیچرز میں فوری ادائیگی، صارف کے لیے تقریباً مفت ہونا، تمام شعبوں کے درمیان کام کرنے کی صلاحیت رکھنا، صارف کو ذہن میں رکھتے ہوئے جدید مصنوعات و خدمات دینا اور بھروسہ مندی اور بہتر سکیورٹی شامل ہیں۔
پاکستان کو اس وقت کئی مالیاتی مسائل کا سامنا ہے، جو نہ صرف اس کی ترقی بلکہ ترقیاتی اہداف کو عملی صورت دینے میں بھی رکاوٹ ہیں۔ ان میں سب سے بنیادی مسئلہ ہے کمزور ٹیکس بَیس کا ہونا۔ وزیر اعظم عمران خان کے مطابق 22 کروڑ کی آبادی میں صرف 20 لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں، جو معاشرے کی سماجی بہبود کے لیے کافی نہیں اور ان سے ہسپتالوں اور اسکولوں کی تعمیر اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی ناممکن ہے جو عام آدمی کی ضرورت ہیں۔ وزیر اعظم کے مطابق میں ملک میں 70 فیصد ٹیکس صرف 3 ہزار افراد دیتے ہیں۔
گو کہ حکومت نے مالی لین دین پر ٹیکس جمع کرنے کے نظام کو خودکار بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں اور بینکاری کے قواعد کو بھی سخت کیا ہے لیکن پھر بھی وہ اہداف کو حاصل نہیں کر پا رہی۔ یہی وجہ ہے کہ کیش بیسڈ اکانمی سے دُوری ٹیکس کو بڑھانے کے لیے ایک منطقی اور مناسب قدم ہے اور یہ کرپشن سے نمٹنے کے لیے بھی اہم ہوگا۔
بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر حوالہ اور ہنڈی جیسے طریقوں کا استعمال کر کے بھی ہو رہی ہیں، جو غیر قانونی تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنتا اور منی لانڈرنگ بھی بڑھتی ہے۔ فوری ادائیگی کا نظام نہ صرف اس معیشت کو دستاویزی صورت دے گا بلکہ ٹیکس بیس کو بھی بڑھائے گا۔
پاکستان کی غیر قانونی لین دین کو روکنے کی صلاحیت، جن میں عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کو سرمائے کی مبینہ فراہمی بھی شامل ہے، اس وقت بین الاقوامی مالیاتی ادارے فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی نظروں میں ہے۔ اس لیے امید ہے کہ یہ انقلابی ڈجیٹل سسٹم پاکستان کو FATF کی جانب سے بلیک لسٹ ہونے سے بچانے میں مدد دے گا۔
اس کے علاوہ یہ دیکھ کر بھی دکھ ہوتا ہے کہ بوڑھے پنشن گزار، جن میں سرکاری ملازمین کی بیوائیں بھی شامل ہوتی ہیں، سخت موسموں میں اپنی پنشن حاصل کرنے کے لیے قطاروں میں لگی نظر آتی ہیں، کیونکہ ان کے پاس بینک اکاؤنٹ کھلوانے کی استطاعت نہیں ہوتی۔ ‘راست’ سرکاری اداروں کی تنخواہیں اور پنشن کو ممکن بنائے گا اور ساتھ ہی ملک گیر مالیاتی سپورٹ پروگراموں کی ترسیل کو بھی، جیسا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس ایمرجنسی کیش پروگرام۔
یہ جدید پیمنٹ سسٹم چھوٹی موٹی ریٹیل ادائیگی کے لیے بھی استعمال ہوگا، جو کم آمدنی رکھنے والے گروپوں کو معیشت کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے میں مدد دے گا۔ اس کے علاوہ یہ حکومت کی خاص طور پر دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوگا اور مالیاتی طور پر کٹے ہوئے اور غیر مراعات یافتہ طبقے بالخصوص خواتین کو مالی طور پر بااختیار بنانے میں مدد دے گا۔
جواب دیں