پاکستان میں جہاں خواتین معیشت کے ہر شعبے میں اپنا متحرک کردار ادا کر رہی ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان میں سے کئی خواتین اپنے کام اور روزمرہ سرگرمیاں انٹرنیٹ تک رسائی کے بغیر انجام دے رہی ہیں۔
"ویمن ڈس کنیکٹڈ” نامی ایک نئی تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان میں ہر 10 میں سے 6 خواتین کو انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے سے رکاوٹوں کا سامنا ہے، خاص طور پر اپنے خاندان کی جانب سے۔
تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ سروے میں شامل 115 خواتین میں ہر 10 میں سے 4 خواتین روزانہ انٹرنیٹ استعمال کرتی ہیں، جبکہ 10 میں سے 2 سرے سے انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتیں۔
اس کے علاوہ روزانہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والی خواتین میں سے نصف کا تعلق ایسے خاندانوں سے ہے جو ماہانہ 60 ہزار روپے سے زیادہ کی آمدنی رکھتے ہیں جبکہ انٹرنیٹ استعمال نہ کرنے والی خواتین میں سے 10 میں سے 7 ایسی ہیں جن کا خاندان 30 ہزار روپے سے کم کی ماہانہ آمدنی رکھتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خواتین کے انٹرنیٹ استعمال کرنے میں بڑا کردار اس سہولت کی استطاعت رکھنا بھی ہے۔
اس کے علاوہ صنفی تقسیم کا دارومدار خواتین کے علاقوں پر بھی ہے، مثلاً خیبر پختونخوا میں حال ہی میں شامل ہونے والے قبائلی اضلاع میں ایک جنوبی وزیرستان میں ہر 10 میں سے 8 خواتین انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتیں۔
خواتین کے لیے رابطے کا اہم ترین ذریعہ موبائل ڈیوائس ہے۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والی 88 فیصد خواتین نے کہا کہ وہ اپنی ذاتی ڈیوائسز کے ذریعے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرتی ہیں اور ان میں سے 78 فیصد کی ڈیوائس موبائل فونز ہیں۔
اس کے علاوہ چند خاندانوں کو خواتین کے انٹرنیٹ استعمال کرنے کے حوالے سے تشویش ہے۔ اس لیے ہر 10 میں سے 5 سے زیادہ (54 فیصد) نے کہا کہ خواتین کی جانب سے انٹرنیٹ کے استعمال کو غلط سمجھا جاتا ہے یا پھر اس کے استعمال کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے سروے میں شامل صرف 21 فیصد نے خواتین کے انٹرنیٹ استعمال کو اچھا قرار دیا جبکہ 25 فیصد نے کہا کہ اس حوالے سے ان کے خاندان کی کوئی واضح رائے نہیں۔
32 فیصد خواتین ایسی ہیں جنہیں صرف کسی مخصوص کام، جیسا کہ آن لائن کلاس لینے یا خاندان کے لوگوں سے رابطے، کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت ہے جبکہ 33 فیصد ایسی ہیں جنہیں صرف محدود دورانیے کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت ملتی ہے۔
کووِڈ-19 کی وباء کے دوران خاندان اور دوستوں سے رابطے کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی کی ضرورت میں کافی اضافہ ہوا۔ لیکن ایسی خواتین کہ جو اپنے گھر سے باہر، مثلاً تعلیمی اداروں یا کام کی جگہوں پر انٹرنیٹ استعمال کر رہی تھیں، لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی وجہ سے انٹرنیٹ تک رسائی سے محروم ہو گئیں۔
خواتین کو بااختیار بنانے میں ٹیکنالوجی کا کردار بہت اہم ہے، یہ انہیں صحت کے مراکز سے منسلک کرتی ہے، کام کے مواقع فراہم کرتی ہے اور انہیں ایسے پلیٹ فارمز تک پہنچنے کے قابل بناتی ہے جہاں سے وہ ضرورت پڑنے پر مدد لے سکتی ہیں۔
جواب دیں