پاکستان اور بھارت کے مابین امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے خواتین کے معروف جریدے ‘eShe’ نے ‘انڈو-پاک پیس سمٹ لَیڈ بائے ویمن’ نامی ایک اجلاس کا انعقاد کیا۔
اس ورچوئل اجلاس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی 40 سے زیادہ معروف خواتین نے شرکت کی اور جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے قابلِ عمل حل پیش کرنے کے حوالے سے اپنے تجربات پیش کیے اور تبادلہ خیال کیا۔
صرف خواتین کے ساتھ یہ ایک منفرد قسم کا اجلاس تھا کہ جس کا انعقاد جنوبی ایشیا میں امن کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے کیا تھا۔ نوبیل امن انعام کے لیے نامزد سیلا ایلوردی کے ساتھ شروع کیے گئے اس منصوبے میں کئی فلم ساز، انسانی حقوق کی کارکن، لکھاری، ڈیزائنرز ایک ساتھ نظر آئیں۔
اس موقع پر "eShe” کی بانی اور مدیر ایکتا کپور نے کہا کہ "یہ وقت ہے پڑوسی ممالک کے درمیان دوستی کا، باہمی تعاون بڑھانے کا اور امن کو تقویت دینے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کا۔ اس اجلاس کے ذریعے ہم خالی خولی وعدوں کے کسی عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتے بلکہ ہم ان روشن اذہان کو سامنے لا رہے ہیں جو اپنے شعبوں میں واقعی اہمیت رکھتے ہیں اور امن کے قیام کے خواہاں ہیں، ویسے بھی خواتین باہمی تعاون، تعلقات کے قیام اور ان کی پائیداری کا رحجان رکھتی ہیں۔
اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے مشترکہ ورثے کی اہمیت، خواتین اور نوجوانوں کے جوش و جذبے کو ایک رُخ دینے اور ادب، فن، ثقافت، سینما اور امورِ نوجوانان میں نئے راستوں کو پلیٹ فارم دینے کی بات کی گئی۔
پینل کی ایک رکن شیلا ریڈی نے کہا کہ "بہت کچھ مشترک ہونے کے باوجود سرحد کے دونوں طرف مختلف رحجانات نظر آتے ہیں جیسا کہ جناح کو ایک طرف سراہا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف ولن سمجھا جاتا ہے۔”
پریتی گل نے کہا کہ "سب سمجھتے ہیں کہ پنجاب محض زراعت سے وابستہ ایک علاقہ ہے اور یہاں کوئی ثقافت یا فکری سرمایہ نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ نہیں کیونکہ لاہور کبھی پورے ہندوستان کا ثقافتی مرکز تھا۔ ادب و ثقافت کے لیے عوامی مقام، منجھا ہاؤس، پنجاب کو وہ مرکزی حیثیت دلانے کی کوشش تھی۔”
فلم ساز نتاشا بدھوار نے کہا کہ "ہم میاں بیوی ایسے تمام انٹرویوز اور دستاویزی فلموں میں شرکت کی درخواستیں مسترد کر دیتے تھے کہ جو ہمارے بین المذہبی جوڑے کی شادی کے بارے میں جاننے کے لیے کی جاتی تھیں۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم اس عمل کی نمائش نہیں کریں گے لیکن پچھلے تین مہینوں میں جو کچھ ہوا ہے، خاص طور پر اُتر پردیش میں بین المذہب شادی کو جرم قرار دینے کا قانون سامنے آنے کے بعد، اب یہ ناگزیر ہو گیا ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم آگے آئیں گے اور اپنی داستان سنائیں گے۔”
اس موقع پر ‘ایمپائر آف دی انڈس’ کی لکھاری ایلس البانیا نے کہا کہ "اپنی کتاب کے لیے تحقیق کے دوران آسان یہی ہوتا کہ میں دریا پار کر لیتی، لیکن لائن آف کنٹرول کی وجہ سے مجھے لاہور آنا پڑا، واہگہ پار کر کے اس مقام تک پہنچنا پڑا جو محض دریا پار کر کے تھا۔”
مونی محسن نے کہا کہ "جنوب مشرقی ایشیا کے باسیوں کو بغیر ویزا کے ایک دوسرے کے ملکوں کا سفر کرتے دیکھ کر دل میں اپنی محرومی اور حسرت کا احساس پیدا ہوا ہے۔ امید یہی ہے کہ یہ خواب نہیں رہے گا بلکہ جنوبی ایشیا میں حقیقت کا رُوپ دھارے گا۔
دیویکا متل نے "آغازِ دوستی” کی جانب سے سرحد کے آر پار رہنے والے طلبہ کے ہاتھوں سے "پِیس کیلنڈر” بنوانے کی ایک سنجیدہ کوشش پر روشنی ڈالی۔
اجلاس میں مصوری کی تعلیم دینے والی طوبیٰ طاہر نے اپنے "سیلف ہِیلنگ پروجیکٹ” کے بارے میں بتایا جبکہ سیاسی کارٹون بنانے والے سعدیہ گردیزی نے اپنے منصوبے "داستان” کے حوالے سے آگہی دی کہ جو تقسیمِ ہند کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے اور ہجرت کرنے والے لوگوں کو ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے آبائی گھروں سے جوڑتا ہے۔
نتاشا نورانی نے کہا کہ ہماری شادیوں پر گائے جانے والے گانے ایک جیسے ہیں۔ چاہے جتنا بھی غصہ ہو، ہماری سیاست بدترین کشیدگی سے دوچار ہو، لیکن آپ کو شاید ہی کوئی پاکستانی شادی ایسی ملے کہ جس میں بھارتی گانے نہ ہوں۔” نتاشا کا خواب ہے کہ وہ پاکستانی موسیقاروں کے ساتھ بھارت کا دورہ کریں۔
ویشنوی نے کہا پاکستان میں دستکاری بہت اعلیٰ پائے کی ہے۔ اسے بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ سرحد کے دونوں جانب ایک دوسرے کے فنون سے آگہی کی بہت ضرورت ہے۔
پاکستان کے تاریخی مندروں کے بارے میں اپنی کتاب کا ذکر کرتے ہوئے ریما عباسی نے کہا کہ "جب ہم ہنگلاج، بلوچستان جا رہے تھے تو ہمیں چند اہلکاروں نے ایک چیک پوسٹ پر روکا۔ انہوں نے پوچھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہم نے بتایا "نانی کے مندر” تو انہوں نے کہا کہ "نانی کو ہمارا سلام دینا۔”
اونی سیٹھی نے کہا کہ ہم کشیدگی اور تنازعات سے پاک معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک خواب ضرور لگتا ہے لیکن کیا ہمارے پاس تنازعات کا حل موجود ہے، کیا ہم اس حوالے سے بات کر سکتے ہیں۔؟
میناکشی گوپی ناتھ نے کہا کہ "آج کے دور میں امن کی خواہاں اور اسے قائم کرنے والی خواتین دراصل باغی عورتیں ہیں۔”
سپرنا چڈھا نے بتایا کہ "میں نے سرسوتی دیوی پر ایک سنسکرت نظم پہلی بار اسلام آباد میں پڑھی تھی، کیا ہی خوبصورت شہر ہے وہ، میڈیا پر جو کچھ آتا ہے وہ اس کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتا کہ جتنی محبت ہمیں وہاں ملی! پاکستان میں بہت محبت اور بہت قبولیت ہے، انہوں نے دل اور بانہیں کھول کر ہمارا استقبال کیا۔”
آمنہ شریف نے کہا کہ "2007ء میں مجھے ایشین فیلوشپ فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک فیلوشپ ملی – میرے پاس موقع تھا کہ ایشیا کے کسی بھی ملک میں تعلیم کے لیے جاؤں اور میں نے بھارت کا انتخاب کیا! میں نوآبادیاتی دور کے بعد ہنرمندی و مہارت پر کا عمل بحال ہونے کے حوالے سے تحقیق کرنا چاہتی تھی۔ یہ تو میں جانتی تھی کہ پاکستان میں ایسا ہو رہا ہے لیکن میں بھارت کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔”
معروف مصور اور مجسمہ ساز رینا سینی کالات کہ جن کے نمایاں کاموں میں پاکستان اور بھارت کو الگ کرنے والا دروازہ بھی شامل ہے، نے کہا کہ "میرا ایک فن پارہ دریاؤں کے بارے میں ہے، ہمارے دریا مشترک ہیں، پانی ایک ہی ہے، اس حوالے سے جو بین الاقوامی معاہدے کیے گئے ہیں وہ ہمارے درمیان بات چیت کے آغاز کا طریقہ پیش کر سکتے ہیں۔”
مہر ایف حسین نے کہا کہ "جو چیز مجھے حیران کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے نہ صرف فنون، ثقافت، تاریخ اور ورثہ مشترک ہیں بلکہ ہمارے مسائل بھی ایک جیسے ہیں لیکن ہم سیاست چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ لوگوں کو چاند سے سیکھنا چاہیے کیونکہ کہتے ہیں کہ چاند میں بھی داغ ہیں، لیکن چاند یہ تو نہیں کہتا کہ وہ میں آج رات نہیں نکلوں گا۔”
معصومہ سید نے بتایا کہ ترکِ وطن سے مجھے عام لوگوں کے بارے میں پتہ چلا، ایسے لوگ جن کے خاندان سرحد کے دونوں جانب موجود ہیں۔ میرے لیے تو "تقسیم” اسی وقت ہوئی جب میں شادی کے بعد پہلی بار بھارت میں اتری تھی۔
جواب دیں