بالآخر خیبر پختونخوا نے بھی خواتین کو گھریلو تشدد سے بچانے کے لیے ایک بل پاس کر لیا ہے۔
جمعے کو منظور شدہ خیبر پختونخوا خواتین پر گھریلو تشدد (تدارک اور تحفظ) بل کے تحت تشدد کرنے والے کو پانچ سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ تاریخی بل خواتین پر معاشی، جسمانی یا جنسی دباؤ کو "تشدد” شمار کرتا ہے۔
تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کی مدد کے لیے جلد ہی ایک ہیلپ لائن کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔
اس بل کے تحت ضلعی سطح پر پروٹیکشن کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جو تشدد کی شکار خواتین کے طبّی علاج، ان کو قانونی مدد کی فراہمی اور پناہ دینے کی ذمہ دار ہوں گی۔ ان کمیٹیوں میں ڈپٹی کمشنر، ایگزیکٹو ہیلتھ آفیسر، ضلعی پبلک پراسیکیوٹر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کے نمائندے سمیت دیگر بھی شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹیاں سال میں دو مرتبہ اپنی رپورٹ خواتین کی حالت زار پر صوبائی کمیشن کے چیئرپرسن کے پاس جمع کروائیں گی۔
بل کے تحت تشدد کے مرتکب شخص کے خلاف 15 دن کے اندر مقدمہ درج کیا جائے گا جبکہ عدالت 2 ماہ کے اندر اس کا فیصلہ سنائیں گی۔
صوبائی وزیر برائے سماجی امور ڈاکٹر ہشام انعام اللہ کا کہنا ہے کہ عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کا نتیجہ ایک سال قید اور 3 لاکھ روپے تک جرمانے کی صورت میں نکلے گا۔
خیبر پختونخوا کابینہ نے نومبر 2018ء میں اس بل کی منظوری دی تھی جسے سول سوسائٹی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے خوب سراہا تھا کیونکہ خیبر پختونخوا پاکستان کا واحد صوبہ تھا کہ جہاں گھریلو تشدد کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں پہلے ہی یہ ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔
جواب دیں