ایک نئی تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیا میں فضائی آلودگی کا سامنا کرنے والی خواتین کو حمل ضائع ہونے یا بچے کے مردہ پیدا ہونے کا خطرہ کہیں زیادہ سامنا ہے۔
لانسیٹ پلانیٹری ہیلتھ جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں ہر سال حمل ضائع ہونے کے 3,49,681 واقعات کا سبب فضائی آلودگی ہے۔ اگر ان ممالک میں آلودگی کو کم کر کے صرف بھارت کے طے شدہ معیار پر بھی لایا جائے تو حمل ضائع ہونے کے 7 فیصد واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔
آلودگی کو حمل ضائع ہونے، قبل از وقت پیدائش اور نومولود کا وزن کم ہونے جیسے مسائل میں اضافے کا سبب پہلے بھی سمجھا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ تحقیق میں یہ تک پایا گیا کہ آلودگی ماں کے جسم سے رحم میں بچے تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ لیکن اس تحقیق کا مقصد جنوبی ایشیا میں حمل ضائع ہونے پر آلودگی کے اثرات کا اندازہ لگانا تھا۔ اس لحاظ سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق تھی اور محققین کہتے ہیں کہ اس تحقیق کا نتیجہ بالخصوص کم ترقی یافتہ ممالک میں ماؤں کی صحت کو بہتر بنانے کے کام آئے گا۔
اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر تاؤ سو ہیں جو پیکنگ یونیورسٹی، چین میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا دنیا کے آلودہ ترین علاقوں میں سے ایک ہے، PM2.5 کی سب سے زیادہ شرح اسی خطے میں پائی جاتی ہے۔ تحقیق کے مطابق بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے حمل ضائع ہونے پر اثرات نمایاں ہیں۔ یوں آلودگی کو خطرناک سطح سے نیچے لانے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔
PM2.5 ایک انتہائی ننھا آلودہ ذرّہ ہے، جو سانس کے ساتھ پھیپھڑوں میں اندر تک پہنچنے اور خون کے بہاؤ تک میں شامل ہو جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے ذرّات گرد، مٹی، دھوئیں یا بخارات پر مبنی ہو سکتے ہیں کہ جو تعمیراتی مقام، کچی سڑک، کھیتوں، چمنیوں کے دھوئیں یا آگ سے نکل سکتا ہے بلکہ ان میں مختلف کیمیائی مادّے بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن عموماً یہ ذرّات پاورپلانٹس اور صنعتی دھوئیں و گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کے آلودہ اجزاء کا ملاپ ہوتے ہیں۔
اگر فضاء میں یہ ذرّات موجود ہوں تو اس کا نتیجہ پھیپھڑوں اور دل کے امراض کی صورت میں نکل سکتا ہے بلکہ اس سے ذہنی صلاحیتیں اور قوتِ مدافعت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
ان ننھے آلودہ ذرّات پر تحقیق کرنے والے محققین نے 2000ء سے 2016ء کے دوران جنوبی ایشیا میں حمل ضائع ہونے کے 7.1 فیصد واقعات کا سبب ماؤں کی ایسی آلودہ فضاء میں موجودگی کو پایا، جو بھارت کے معیار 40 مائیکروگرامز فی مکعب میٹر سے زیادہ تھی۔
واضح رہے کہ عالمی ادارۂ صحت کی ‘ایئر کوالٹی گائیڈلائنز’ کے مطابق فی مکعب میٹر ہوا میں آلودہ ذرّات 10 مائیکرو گرامز سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں۔ اگر عالمی معیار سے تو دیکھیں تو حمل ضائع ہونے کے 29 فیصد سے زیادہ ایسے واقعات کا سبب آلودگی ہو سکتی ہے، یعنی تقریباً ایک تہائی۔
تحقیق کے مطابق دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی مائیں یا جن کی عمر زیادہ ہو، وہ شہری علاقوں کی کم عمر ماؤں کے مقابلے میں زیادہ خطرے سے دوچار ہیں۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے حمل ضائع ہونے کا خدشہ بھارت اور پاکستان کے شمالی دریائی میدانی علاقوں میں زیادہ ہے۔
اس تحقیق کے لیے محققین نے 1998ء سے 2016ء کے دوران صحت کے حوالے سے کیے گئے مختلف سروے کے ڈیٹا کا جائزہ لیا اور سیٹیلائٹس کی مدد سے آلودگی کے اندازے بھی لگائے۔ پھر انہوں نے ایک ماڈل تیار کیا کہ کس طرح آلودگی خواتین کے حمل ضائع ہونے کے خطرے میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس حوالے سے ماں کی عمر، درجہ حرارت اور نمی کا تناسب، موسمیاتی تغیّرات اور حمل کے ضائع ہونے کے عمومی طویل المیعاد رحجانات کو مدنظر رکھا۔
تحقیق میں 34,197 ماؤں کو شامل کیا گیا تھا کہ جن کا حمل ضائع ہوا۔ ان میں 27,480 واقعات حمل گر جانے کے تھے اور 6,717 بچے کے پیدائشی طور پر مردہ ہونے کے۔ ایسے 77 فیصد بھارت میں، 12 فیصد پاکستان اور 11 فیصد بنگلہ دیش میں ہوئے تھے۔
تحقیق کہتی ہے کہ فضائی آلودگی رکھنے والے کم اور درمیانی آمدنی کے حامل ممالک میں اس میں اضافے کا خدشہ ہے۔ لیکن اگر آلودگی کم ہو جائے تو حمل کے ضائع ہونے یا بچوں کے مردہ پیدا ہونے کی شرح کو گھٹایا جا سکتا ہے اور اس سے صنفی مساوات میں بھی بہتری آئے گی۔
اس تحقیق میں شریک ڈاکٹر تیانجیا گوان، چائنیز اکیڈمی آف میڈیکل سائنسز اور پیکنگ یونین میڈیکل کالج سے تعلق رکھتی ہیں، جن کا کہنا کہ "ہمیں حمل کے ضائع ہونے کے عورت پر پڑنے والے ذہنی، جسمانی اور معاشی اثرات کا اندازہ ہے، بلکہ اس سے پیدائش کے بعد ذہنی تناؤ، دوبارہ حمل ٹھہرنے کی صورت میں بچے کی موت کی شرح میں اضافہ اور حمل کی پیچیدگیوں کی وجہ سے لاگت میں اضافہ بھی شامل ہے۔”
یہ تحقیق خبردار کرتی ہے کہ آلودگی اور حمل کے ضائع ہونے کے مابین تعلق کو بہتر انداز میں جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
البتہ یہ بات طے شدہ ہے کہ فضائی آلودگی صحت کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کہتا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال 42 لاکھ افراد فضائی آلودگی کی وجہ سے فالج، دل کے امراض، پھیپھڑوں کے سرطان، سانس کے شدید امراض کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔
جواب دیں