یکم اکتوبر 2020ء کو بنگلہ دیش میں قائم انسانی حقوق کی انجمن ‘این او سالش کیندرا’ نے انکشاف کیا کہ اس سال جنوری سے ستمبر کے دوران 1,000 سے زیادہ خواتین کا ریپ ہوا۔ 43 خواتین کی موت واقع ہو گئی اور 200 سے زیادہ مزید خواتین ریپ کی کوشش سے بچیں۔
یہ بنگلہ دیش کے معاشرے کا ایک بھیانک نیا رحجان ہے۔ یہی نہیں بلکہ سال بھر کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2020ء بنگلہ دیشی خواتین کے لیے بدترین رہا ہے، بلکہ پچھلے چار سالوں کو ملا بھی لیا جائے تو اس سے بھی بُرا۔ بنگلہ دیشی انسانی حقوق کی تنظیم ادھیکار کا کہنا ہے کہ 2016ء سے 2019ء کے دوران ریپ کے 963 ایسے واقعات پیش آئے کہ جن میں عورت نشانہ بنی۔ بلاشبہ ان دونوں صورتوں میں بنگلہ دیش میں ریپ کے حقیقی واقعات سے کم کیسز رپورٹ ہوئے ہوں گے، کیونکہ خواتین کی بہت بڑی تعداد ان واقعات کو رپورٹ کرتے ہوئے خوف سے دوچار ہیں۔
بنگلہ دیش میں ریپ کے واقعات کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے اقوامِ متحدہ نے حال ہی میں سخت تشویش کا اظہار کیا اور ملک سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے سست اور ڈھیلے ڈھالے عدالتی انصاف کی اصلاح کرے۔ کئی ہائی پروفائل ریپ واقعات سامنے آنے کے بعد چند ہفتے قبل مظاہروں نے بنگلہ دیش کو ہلا کر رکھ دیا جس میں موجودہ قوانین کی اصلاحات کے لیے ملک گیر مظاہرے کیے گئے کہ مرتکب افراد کو سزائے موت دی جائے اور ان کے مقدمات کا فیصلہ فوراً کیا جائے۔ بالآخر 13 اکتوبر 2020ء کو حکومت نے موجودہ سزا عمر قید کو تبدیل کرتے ہوئے ریپ کے مرتکب افراد کو سزائے موت دینے کا قانون متعارف کروایا۔
کووِڈ-19 کی وباء کے دوران ریپ کی وباء نے بھی بنگلہ دیش کو گھیر رکھا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے اور بنگلہ دیش میں اس سماجی بحران کا ممکنہ حل کیا نکل سکتا ہے؟ اس کے لیے پہلے اسباب جاننا ضروری ہیں، غیر مؤثر عدلیہ، پدر شاہی (patriarchal) معاشرہ اور منشیات کے استعمال نے ریپ کی وباء کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے ان میں سے ہر عنصر سے نمٹ کر ہی ملک خواتین کے لیے محفوظ بن سکتا ہے۔
ریپ کی وباء کو بڑھانے والے عوامل
چند عوامل ایسے ہیں جو خواتین کے خلاف ریپ کلچر میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور یہ مختلف ملکوں میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے معاملے میں تین بنیادی وجوہات ہیں، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ پہلا بنگلہ دیش کا غیر مؤثر اور کمزور عدالتی نظام ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق مسئلہ ریپ کرنے والوں کو سخت سزا دینے کا نہیں ہے، بلکہ عدالتوں کی جانب سے ریپ کے کیسز میں ان کو مجرم ٹھہرانے میں ناکامی اور اس کی شکار خواتین کا سامنے آنے میں خوف محسوس کرنا ہے۔ بنگلہ دیش کے چھ انتظامی اضلاع میں 2011ء سے 2018ء کے دوران عدالت میں 4,372 کیسز میں سے صرف پانچ میں مجرم کو سزا دی گئی۔ اس کی بھی کئی وجوہات ہیں: غیر قانونی سیاسی مداخلت، مقدمے کی پیروی کا پیچیدہ اور سست نظام، بدعنوان انتظامیہ اور چند معاملات میں جھوٹے مقدمات۔
ان عوامل میں غیر قانونی سیاسی مداخلت غالباً عدالتی نظام کی راہ میں سب سے نمایاں رکاوٹ ہے۔ کئی سیاسی رہنما اس بنیاد پر ریپ کرنے والے کی حمایت کرتے ہیں کہ وہ سیاست دانوں گے رشتہ دار ہیں، ان کے پالتو غنڈے یا ساتھی ہیں۔
دوسری وجہ ہے کہ بنگلہ دیش ایک قدامت پسند ملک ہے جہاں پدرشاہی بہت اندر تک اثر و نفوذ رکھتی ہے۔ ایسے معاشرے سمجھتے ہیں کہ مرد اپنی مردانگی جارحانہ انداز میں ظاہر کرے گا جبکہ عورت فرمانبردار، خیال کرنے والی اور جذباتی رویّوں کے ساتھ کے ساتھ اپنی نسوانیت دکھائے گی۔ سوسن براؤن ملر کے مطابق پدر شاہی معاشروں میں ریپ کو سماج پر گرفت کے لیے طاقت کے مردانہ اظہار کا ذریعہ سمجھ کر استعمال کیا جاتا ہے۔ کراؤن پراسیوکیشن سروس نے ریپ کرنے والوں کے جو انٹرویو لیے تھے ان میں بھی کچھ ایسا ہی کہا گیا تھا کہ وہ ریپ غلبے کے احساس کا لطف اٹھانے کے لیے کرتے ہیں، نہ کے جنسی تسکین کے لیے۔
بالکل اسی طرح مظلوم ہی کو زد پر رکھ لینا بھی بہت عام ہے۔ بنگلہ دیش میں ریپ کے حوالے سے وائس نیوز کی ایک وڈیو ڈاکیومنٹری میں کئی مردوں کو دیکھا گیا، جن میں پولیس عہدیدار، مقامی اور مذہبی رہنما بھی شامل تھے کہ جنہوں نے ریپ کے زیادہ تر واقعات کا الزام عورت ہی پر دھرا، نامناسب لباس یا بلا روک ٹوک کے آنے جانے یا ان کی ذاتی سرگرمیوں کو بنیاد بناتے ہوئے۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش کے مشہور اداکار اننتا جلیل نے فیس بک پر ایک وڈیو میں ریپ کا الزام خواتین کے بے ہودہ کپڑے پہننے پر لگایا۔ بدترین ظلم کی شکار خاتون ہی کو الزام لگانے کی یہ حرکت بنگلہ دیشی معاشرے کی پدر شاہی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ریپ کی شکار خواتین کو جب خود معاشرے کی جانب اس طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ ایسے کسی بھی واقعے کو سامنے لانے میں پریشانی محسوس کرتی ہیں۔ اس سے جرم کے مرتکب افراد کو جواز ملتا ہے اور اپنے جنسی جرائم جاری رکھنے کی کھلی چھوٹ بھی۔
آخر میں اور سب سے اہم یہ کہ بنگلہ دیش میں منشیات کی لت اور ریپ کے واقعات میں ایک تعلق موجود ہے، چاہے غیر علانیہ ہی کیوں نہ ہو۔ منشیات کے خلاف ایک مقامی ادارے ایسوسی ایشن فار پریوینشن آف ڈرگ ابیوس (MANAS) کے مطابق ملک میں تقریباً 75 لاکھ منشیات کے عادی موجود ہیں، جن میں سے زیادہ تر ‘یابا’ کے عادی ہیں، جو دراصل میتھمفیٹامن اور کیفین رکھتی ہے اور جنسی واہموں اور ہیجان کو پیدا کرتی ہے۔ اس کو استعمال کرنے والے خود کو زیادہ وحشی اور جنسی طور پر طاقتور سمجھتے ہیں اور یوں ریپ کرنے والے بن جاتے ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق ملک میں ریپ اور ریپ کے ساتھ قتل کے 80 فیصد واقعات میں منشیات کے عادی ملوث ہیں۔
ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کو کم کرنے کے ممکنہ طریقے
ریپ تیزی سے بڑھتے ہوئے جرائم میں سے ایک ہے اور یہ محض سماجی مسئلہ نہیں بلکہ بنگلہ دیش میں صحت کا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ریپ کلچر سے نمٹنے کے چار ممکنہ طریقے ہو سکتے ہیں۔
سب سے پہلے قانون کا فوری اور باقاعدہ نفاذ یقینی بنایا جائے۔ گو کہ بنگلہ دیش نے ملک میں ریپ پر سزائے موت کا اعلان کر دیا ہے لیکن یاد رکھیں کہ موت کی سزا ریپ کے واقعات روکنے میں مزاحم ثابت نہیں ہوگی کیونکہ اس سے قتل جیسے جرائم بھی نہیں رکے۔ لیکن اس کا ایک خوفناک پہلو یہ ہے کہ اس صورت میں ریپ کرنے والا شواہد مٹانے کے لیے ریپ کے بعد اپنے شکار کو قتل بھی کر سکتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ قانون کے بھرپور نفاذ سے یہ ثابت کیا کہ ریپ کوئی معمولی جرم نہیں ہے اور اس طرح کے واقعات کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔
دوسرا پہلو یہ کہ خواتین کو اپنی حفاظت آپ کی تربیت دینے پر زور دینے کے بجائے مردوں کو یہ سختی سے تعلیم دی جائے کہ وہ ریپ نہ کریں۔ اس حوالے سے مذہبی رہنما اخلاقیات پر مبنی درس دے سکتے ہیں جو روایتی مردانہ ذہنیت کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسکول اور کالجوں میں تعلیمی نصاب میں اہم حصے شامل ہونے چاہئیں کہ جو مردوں کو خواتین کے احترام سے آگاہ کریں۔
تیسرا یہ کہ بنگلہ دیش میں منشیات کے بڑھتے ہوئے مسئلے کو فوری طور پر حل کیا جائے کیونکہ زیادہ تر واقعات منشیات کے عادی افراد ہی نے کیے ہیں۔ حکومت کو سرحدوں کی سخت نگرانی، منشیات کے کاروبار میں شامل مقامی ذرائع کے خاتمے اور منشیات کے دھندے میں ملوث اور نشے کے عادی افراد سے قانوناً نمٹنے کے لیے کارروائیاں کرنا شامل ہیں۔ عوام میں منشیات اور اس کے کاروبار کے خلاف شعور اجاگر کرنے کے لیے سماجی منصوبے تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
اور آخر میں جیسا کہ ٹموتھی بینیک زور دیتی ہیں کہ ریپ کا ذمہ دار مرد ہے؛ وہی ریپ کا الزام عورت پر دھرنا بند کر کے اس مسئلے کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں سماجی و ثقافتی تغیّر کی فوری ضرورت ہے جس میں ریپ کا الزام اس کے مرتکب فرد پر لگانا ضروری ہے بجائے اس کے کہ ظلم کی شکار ہی کو زد پر رکھ لیا جائے۔ اس کے علاوہ کیونکہ ریپ کے بعد اس کی شکار خاتون کی ذہنی صحت بہت اہمیت رکھتی ہے اس لیے لوگوں کو اس کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
آخری بات
ریپ عورت کی جسمانی خود مختاری کے ساتھ ساتھ اس کے نفسیاتی و جذباتی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے، اور بنگلہ دیش میں یہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ریپ کی یہ وباء بنگلہ دیش میں ریاستی و سماجی ڈھانچے کی ناکامی کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ پدر شاہی کے لامحدود غلبے اور نظریات عورت کو جنسی چیز کے طور پر پیش کرتے ہیں اور انہیں غیر انسانی سطح پر رکھتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ بنگلہ دیش راتوں رات ایک ریپ سے پاک ریاست بن جائے۔ لیکن قانون کی حکمرانی، عورتوں کے حوالے سے مردوں کے رویّوں میں تبدیلی اور منشیات کی لت پر قابو پانے سے اس خوفناک وباء کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔
Pingback: ریپ کے مقدمے کے ملزمان بری، بنگلہ دیش میں مظاہرے - دی بلائنڈ سائڈ