ایرنا سولبرگ، سینا میرن، کترین ییکبس دوتر اور میٹ فریڈرکسن میں ناروے، فن لینڈ، آئس لینڈ اور ڈنمارک کی خاتون وزرائے اعظم ہونے کے علاوہ کیا قدر مشترک ہے؟ جواب ہے کہ ان ممالک میں کووِڈ-19 سے متاثر ہونے کی شرح آئرلینڈ، سوئیڈن اور برطانیہ جیسے پڑوسی ممالک سے کہیں کم ہے، کہ جہاں مَردوں کی حکومت ہے۔
کیا واقعی اس بات کا باہم کوئی تعلق بنتا ہے؟ ہو سکتا ہے کیونکہ شواہد تو یہی ثابت کر رہے ہیں۔
ڈیجیٹل بینک ‘این 26’ کی جانب سے 100 ممالک میں صنفی مساوات کا مشاہدہ کیا گیا، اور بتایا گیا ہے کہ فن لینڈ میں، جس کی آبادی 55 لاکھ ہے، میں صرف کرونا وائرس سے 370 اموات ہوئی ہیں، یعنی فی ملین تقریباً 60 اموات۔ برطانیہ میں اموات کی شرح اس سے 10 گُنا زیادہ ہے۔ بلاشبہ دونوں بہت مختلف ملک ہیں، لیکن شمالی یورپ کے اُن ممالک سے بھی یہی تاثر سامنے آ رہا ہے، جہاں خواتین کی حکمرانی ہے۔ ناروے میں فی ملین 57 اموات ہوئی ہیں، آئس لینڈ میں 73 اور ڈنمارک میں 135 جبکہ ان کے مقابلے میں آئرلینڈ میں یہ شرح 412، سوئیڈن میں 626 اور برطانیہ میں ہر 10 لاکھ پر 820 ہے۔
یہی نہیں بلکہ خواتین حکمران رکھنے والے دیگر ممالک، خاص طور پر جرمنی اور نیوزی لینڈ، میں بھی کووِڈ کی شرح کہیں کم ہے۔
‘سینٹر فار اکنامک پالیسی ریسرچ’ اور ‘ورلڈ اکنامک فورم’ کا شائع کردہ تجزیہ بتاتا ہے کہ یہ فرق واقعتاً موجود ہے اور ہو سکتا ہے یہ خاتون حکمرانوں کی جانب سے دکھائے گئے "بروقت اور ہم آہنگ پالیسی ردعمل” کا نتیجہ ہو۔
برطانوی روزنامے گارجیئن کے لیے اپنی تحریر میں جین ڈوڈمین لکھتی ہیں کہ اگر کووِڈ سے نمٹنے اور خاتون کی حکمرانی کے درمیان کوئی ربط ہے تو اس کا پتہ چلنا بھی ضروری ہے اور دیگر رہنماؤں کے لیے اس سے سیکھنا بھی اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی بات کہنا بھی قبل از وقت ہوگا۔ جرمنی میں دیکھ لیں، جہاں اب اب روزانہ کیسز اور اموات بڑھ رہی ہیں۔ غیر ضروری دکانیں بند کروا دی گئی ہیں اور 16 دسمبر سے سخت لاک ڈاؤن لگ چکا ہے۔
کیا طاقتور عہدوں پر موجود خاتون مَردوں سے مختلف ہوتی ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں۔ برطانیہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کے حوالے سے آج بھی کئی پہلوؤں سے بحث ہوتی ہوگی، لیکن یہ بات تو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے بہت کم کام کیا۔ ملک کی سابق وزیر داخلہ ٹریسا مے نے ایسا ماحول بنایا کہ معاملات وِنڈرَش اسکینڈل تک پہنچ گئے۔ پھر موجودہ وزیر داخلہ پریتی پٹیل کی کو دیکھ لیں کہ جو ایسے آمرانہ رویّے کی حمایت کر رہی ہیں جو 1980ء کی سخت گیر پالیسیوں سے بھی کڑا ہو۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ خواتین سیاست دان مَردوں کے گھناؤنے کاموں پر پردہ ڈالنے بلکہ انہیں تکمیل تک پہنچانے کے لیے بھی تیار رہتی ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ نقطہ آغاز کیا ہونا چاہیے؟ کسی بھی ادارے میں اہم عہدوں ایک تہائی سے زیادہ عورتوں پر مشتمل ہو۔ دیگر ملکوں کی طرح برطانیہ میں بھی تنخواہوں کے معاملے میں خواتین مردوں سے پیچھے ہیں اور سینیئر عہدوں پر بھی ان کی تعداد کم ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ سرکاری ملازمین میں، قومی ادارۂ صحت کے عملے، مقامی حکومتوں کے کارکنوں اور خیراتی اداروں میں اب بھی ایک غیر علانیہ حد ہے، جس سے آگے خواتین کو نہیں جانے دیا جاتا۔
فِن لینڈ میں بھی کہ جہاں زیادہ تر وزارتوں پر خواتین براجمان ہیں، لیکن حقوقِ نسواں کے لیے کام کرنے والے اصلاحات کے خواہاں ہیں کیونکہ دنیا کی کم عمر ترین خاتون وزیر اعظم کچھ نہیں کر سکتیں، جب تک کہ ان کی پشت پر موجود نظام تبدیل نہیں ہوتا۔
معاملہ صرف خواتین کا نہیں، بلکہ مساوات کا ہے اور تمام سیاست دانوں کی جانب سے ایسے نظام تخلیق کرنے کا ہے کہ جو انصاف پر مبنی ہو اور اپنے شہریوں کے لیے منصفانہ ہو۔ گزشتہ سال نے اس کو کافی حد تک نمایاں کر دیا ہے کہ کیسے موجودہ عدم مساوات، چاہے وہ صنفی ہوں یا نسلی یا پھر طبقاتی، لوگوں کو بحران زدہ کر رہے ہیں۔ یورپ بھر میں وباء کے دنوں میں گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا اور کووِڈ نے ورکنگ ویمن کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ایسے کام کرتی ہیں جن کی کوئی تنخواہ نہیں ملتی اور خاندانی ذمہ داریوں کا بوجھ اب بھی خواتین پر بہت زیادہ ہے۔ جُز وقتی کاموں میں بھی خواتین کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے، جس کی وجہ سے تنخواہوں کے حوالے سے بھی صنفی عدم توازن پیدا ہو رہا ہے۔
کئی عورتوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ انہیں مرد کی برابر کرنے کے لیے کتنی محنت کرنا پڑتی ہے۔ کئی یہ بات بھی مانیں گی کہ انہیں اس قابل بنانے میں ان کے رابطوں، ساتھیوں کی مدد، اساتذہ کے مشورے، ماؤں، بہنوں اور دوستوں کا اہم کردار ہے۔
اور اب تبدیلی کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔ این 26 کا سروے بتاتا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں خواتین کو کئی لحاظ سے جو نقصان پہنچا وہ اپنی جگہ، لیکن کئی کامیابیاں بھی نصیب ہوئیں۔ جرمنی نے بورڈز آف ڈائریکٹرز میں صنفی بنیادوں پر کوٹا مقرر کر کے ایک تاریخی قانون منظور کیا، کملا ہیرس آئندہ چند دنوں میں امریکا کی پہلی خاتون نائب صدر بنیں گی، یہی نہیں بلکہ اب امریکی کانگریس میں خواتین اراکین کی تعداد 23 فیصد سے زیادہ ہے۔ بہتری کی اب بھی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے لیکن محض کھویا نہیں، بہت کچھ پایا بھی ہے۔ موجودہ صورت حال میں سیاست دان ہی امید کی وہ کرن ہیں جو صحیح سمت میں رہنمائی کر سکتی ہے۔
جواب دیں