‏38 سال تک غلامی کی زندگی گزارنے والی خاتون بالآخر آزاد

لیبر انسپکٹر ہمبرتو مونتیرو کیماسمی اپنی ٹیم کے ہمراہ برازیل کی ریاست میناس گیراس میں عام طور پر کاروباری اداروں اور کھیت کھلیانوں میں کام کرنے والوں کی نگرانی کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کے حقوق کو یقینی بنایا جا سکے۔ لیکن 27 نومبر کو وہ برازیل کے شہر پاتوس دی میناس میں ایک ایسے گھر پہنچے کہ جس کے بارے میں انہیں شبہ تھا کہ وہ کسی کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔

یہ یونیورسٹی پروفیسر ڈالٹن سیزر میلاگریس ریگیرا کا گھر تھا، جس کے بارے میں پڑوس کے چند گھروں نے اطلاع دی تھی کہ وہاں ایک گھریلو ملازمہ ہے، جس کے ساتھ ان کا رویہ انتہائی مشتبہ ہے۔

غلامی کی سی زندگی گزارنے والی ‘نوکرانی’ کا نام ہے میدالینا گوردیانو، جس نے کچھ عرصہ پہلے پڑوس کے گھروں میں خفیہ پیغامات رکھنا شروع کر دیے تھے جن میں صفائی و پاکیزگی کے لیے ضرورت کی بنیادی اشیاء اور تھوڑے بہت پیسے مانگے جاتے تھے۔

جب پولیس گھر پہنچی تو کچھ ہی دیر میں اندازہ ہو گیا کہ پڑوسیوں کے خدشات بالکل درست تھے۔ 46 سال کی گوردیانو کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیا جا رہا تھا۔ کوئی کاغذات نہیں، کام کے طے شدہ اوقات نہیں، کوئی چھٹی نہیں اور نہ ہی مناسب ادائیگی، جو قانوناً لازمی ہیں اور ان سب کے بغیر انہیں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا، وہ بھی کوئی چند مہینے یا سال نہیں بلکہ 38 سال سے۔

ایک طرف جہاں پروفیسر ڈالٹن اور ان کا خاندان ایک کشادہ مکان میں آرام دہ زندگی بسر کر رہا تھا، گوردیانو پانچ مربع میٹر کے ایسے کمرے میں رہنے پر مجبور تھیں کہ جس میں کھڑکیاں بھی نہیں تھیں۔ سیاہ فام برازیلی خاتون کی رہائی کو اب چھ ہفتے ہو چکے ہیں اور اب وہ ضرورت مندوں کو سماجی و نفسیاتی سپورٹ فراہم کرنے والے ایک ادارے میں رہتی ہیں۔

گوردیانو نے بتایا کہ کچھ عرصے سے انہیں کمر میں بہت تکلیف تھی، تب زندگی میں پہلی بار انہوں نے ڈاکٹر کی شکل دیکھی۔

انہیں کئی ویکسینز بھی لگنا باقی ہیں کیونکہ ریگیرا فیملی ان کی صحت کا بالکل خیال نہیں رکھتی تھی۔ خود بتاتی ہیں کہ ایسا بہت کچھ ہے جو اب سیکھنا ہے۔ مثلاً بینک سے رقوم کس طرح نکلواتے ہیں، اسمارٹ فون کیسے استعمال کرتے ہیں، "میرا تو سوچ سوچ کر ہی سر گھوم رہا ہے۔”

یہ خبر برازیل کے ٹیلی وژن گلوبل نے 21 دسمبر 2020ء کو بریک کی تھی جس پر گزشتہ روز جرمن ادارے ‘ڈوئچے ویلے’ نے ایک تفصیلی رپورٹ دی ہے۔

اس واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ گوردیانو کی کہانی گو کہ برازیل کے معاشرے میں موجود نسلی تعصب کو ظاہر کرتی ہے لیکن دراصل وہ ایک بڑے مسئلے کا محض ایک حصہ ہے۔

‘واک فری فاؤنڈیشن’ کے اندازوں کے مطابق برازیل میں ساڑھے تین لاکھ لوگ اس وقت غلاموں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ غیر سرکاری انجمنیں جدید غلامی کی تعریف یہ کرتی ہیں کہ "کوئی بھی شخص جس کا استحصال کیا جائے لیکن وہ کام سے انکار نہ کر سکے یا دھمکیوں، تشدد، جبر، دھوکے کی وجہ سے کام چھوڑ نہ پائے۔”

برازیل نے 1995ء میں ‘لیبر انسپکشن’ کا عمل شروع کیا تھا، جس کے تحت ایسے واقعات کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاتا ہے۔ اب تک 55 ہزار سے زیادہ افراد کو آزاد کروایا جا چکا ہے، لیکن ان میں گھریلو ملازمین کی تعداد صرف 21 ہے۔

لیبر انسپکٹر کیماسمی کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کی رہائش گاہوں کی آسانی سے نگرانی نہیں کر سکتے۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھریلو ملازمین مالی طور پر یا جذباتی طور پر اُن خاندان پر اتنا انحصار کرتے ہیں یا ان سے اتنی قربت رکھتے ہیں کہ ان کو آزاد کروانا مشکل ہوتا ہے۔

یہی وجہ تھی جو گوردیانو کو غلامی سے آزاد ہونے سے روکتی رہی۔ "مجھے پتہ تھا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے، لیکن مجھے خوف تھا اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ پولیس کے پاس شکایت کیسے درج کرواتے ہیں۔”

گوردیانو کی داستان شروع ہوتی ہے 8 سال کی عمر سے، جب انہوں نے کھانے کے لیے کچھ مانگتے ہوئے ریگیرا فیملی کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ تب اس خاندان نے گوردیانو کے والدین کو یقین دلایا کہ وہ اس بچی کو گود لیں گے اور اس کا خیال رکھیں گے۔ والدین نے یہ پیشکش قبول کر لی لیکن جلد ہی ان کا بیٹی سے رابطہ ختم ہو گیا۔ جبکہ وعدو کے برعکس ریگیرا فیملی نے انہیں کبھی باضابطہ طور پر گود نہیں لیا۔ بلکہ جلد ہی اسکول سے نکال کر کپڑے دھونے، صفائی ستھرائی اور کھانے پکانے جیسے گھریلو کاموں پر لگا دیا۔

2000ء کے اوائل میں جب گوردیانو نوجوان تھیں، تو ان کی شادی ریگیرا خاندان ہی کے ایک 78 سالہ بڈھے سے کر دی گئی۔ وہ تو دو سال بعد ہی مر گیا، لیکن اس کی پنشن گوردیانو کے بجائے ریگیرا فیملی کو ملتی رہی۔ ایک مقامی اخبار کے مطابق اس پنشن کی رقم سے ڈالٹن ریگیرا اپنی بیٹی کے میڈیکل تعلیم کے اخراجات پورے کرتے تھے۔

بلاشبہ میدالینا گوردیانو کی شادی قانونی تھی، کیونکہ انہوں نے ایجاب و قبول کیا تھا، لیکن کیماسمی کہتی ہے کہ دراصل اس شادی کا اہتمام ریگیرا فیملی نے اسی لیے کیا تھا تاکہ وہ اس سے مالی فائدہ اٹھا سکیں۔

2006ء میں گوردیانو کے اس خاندان کے ایک بیٹے، یعنی ڈالٹن، کے حوالے کر دیا گیا، جس کی اپنی بیوی اور بچہ تھا، اور پھر گوردیانو نئے گھر میں لیکن اسی غلامی میں زندگی گزارنے لگیں۔

ڈالٹن ریگیرا، جنہیں اب یونیورسٹی کی ملازمت سے نکال دیا گیا ہے، دعویٰ کرتے ہیں کہ گوردیانو ان کی بہن کی طرح ہے۔ انہوں نے اسے کبھی کوئی کام کرنے پر مجبور نہیں کیا اور وہ ان کے تمام مالی حقوق دیتے رہے ہیں۔ لیکن پولیس کچھ اور کہتی ہے۔ "بینک رسیدوں پر وہ اخراجات کیوں ہیں کہ جن سے گوردیانو کا کوئی لینا دینا نہیں، جیسا کہ پٹرول اور سینما کے ٹکٹ۔ حقیقت یہ ہے کہ گوردیانو کو کبھی اپنے ساتھ باہر تک نہیں لے گئے، اور نہ ہی خاندان کی کسی تقریب میں لے جاتے تھے۔ اور یہ بھی کہ آخر ایک یونیورسٹی پروفیسر اپنی ‘بہن’ کو پڑھنے کیوں نہیں دیتا تھا؟

اب معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے اور اس خاندان کے چند اراکین کو کئی سال قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔

ہمبرتو کیماسمی کہتے ہیں کہ میدالینا گوردیانو کے کیس کی بڑے پیمانے پر کوریج کے بعد ایسے کئی واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ ہمیں مناس گیراس میں ہی ایسے پانچ غلاموں کا پتہ چلا ہے۔ امید ہے کہ اس سال عام گھروں سے بھی ایسے کئی کیسز سامنے آئیں گے۔

اب میدالینا گوردیانو ماضی کو بھول کر نئی زندگی جینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ "میں ان لوگوں نے حتی الامکان حد تک دُور رہنا چاہتی ہوں؛ اسکول جانا اور سفر کرنا چاہتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ میرا اپنا گھر ہو۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے