جہاں تک بات ہے ورکنگ ویمن کی تو انہیں ابھی بہت طویل سفر کرنا ہے، لیکن اب تک جتنا سفر کیا ہے، وہ بھی اچھا خاصا ہے۔ دنیا کے بڑے اداروں کی فہرست ‘فورچیون 500’ میں ایسی کمپنیوں کی ریکارڈ تعداد موجود ہے کہ جن کی چیف ایگزیکٹو آفیسرز دراصل خواتین ہیں۔ 2019ء کی ‘فورچیون 500’ فہرست میں 33 خواتین سی ای اوز موجود ہیں۔ یہ ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ تعداد ہے، گو کہ اب بھی کُل سی ای اوز کا صرف 6.6 فیصد ہے۔ آگے کا سفر دشوار اور کٹھن ہے، کیونکہ جب معاملہ صنفی برابری کا آتا ہے تو نظام کی خامیاں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں۔
لیکن ساری غلطیاں محض نظام کی نہیں ہیں، بلکہ کچھ ایسی بھی ہیں جو خواتین خود کرتی ہیں۔ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا سبب یہ معمولی غلطیاں ہوتی ہیں:
ضرورت سے زیادہ جذباتی ہونا
پروفیشنل لوگوں کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور خواتین تو ابھی اس دنیا میں نئی نئی داخل ہوئی ہیں۔ پھر ان کا معاملہ اس لیے بھی مشکل ہے کہ جب دن بھر دفتر کا کام مکمل کرنے کے بعد گھر کا رُخ کرتی ہیں تو وہاں بھی کاموں کی ایک نئی فہرست ان کی منتظر ہوتی ہے۔ جبکہ مرد تو چھٹی کے بعد آزاد ہوتا ہے۔ بلاشبہ کبھی کبھی خود کو دباؤ میں محسوس کرنا، اور آنسو بھی بہا لینا، اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ لیکن خواتین یہ بات ذہن میں رکھیں کہ کام کے دوران، دفتر یا کارخانے میں، جذبات کا بندھن ہرگز نہ ٹوٹے۔
کام کے دوران ہرگز نہیں رونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص عملیت پسند نہ ہو تو اس کی پیشہ ورانہ لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں اور اگر فیصلہ سازی پر جذبات غالب آ جائیں تو سمجھ لیں کہ آپ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ہار گئیں۔ جب بھی جذبات کا غلبہ ہو تو پانی پیئیں، گہرے اور لمبے لمبے سانس لیں اور اپنے دماغ کو پُرسکون رکھنے کی کوشش کریں۔
کم پر قناعت کرنا/ اپنی صلاحیتوں کے مطابق حق نہ مانگنا
خواتین کی تربیت ہی کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ کسی سے کوئی توقع نہ رکھیں اور اپنی بہترین صلاحیتیں دوسرے کے لیے کام میں لاتی رہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خواتین سمجھتے ہیں کہ انہیں کم معاوضے پر بھی زیادہ کام کرنا چاہیے۔ اس لیے زیادہ تر خواتین اس بات کو نہیں سمجھ پاتیں کہ وہ ایک اچھی تنخواہ کی اور اپنی سخت محنت کے بھرپور صلے کی مستحق ہیں۔ اس لیے اپنی خود کلامی کو الفاظ میں بدلیں، آپ کو اردگرد کی دنیا بھی بدلتی ہوئی نظر آئے گی۔ اگر آپ خود اپنے لیے کھڑی نہیں ہو سکتیں تو کسی کو آپ کی سخت محنت نظر نہیں آئے گی۔ تنخواہ کا معاملہ ہو یا appraisal میٹنگ کا، اپنے خیالات کو آواز دیں اور اپنی جائز تنخواہ طلب کریں۔
کام پر دوسری خواتین سے مقابلہ کرنا
عام طور پر کام کی جگہ پر خواتین کو ایک دوسرے سے ہی مقابلے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، اور اس کا الزام پدر شاہی (patriarchy) پر لگایا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خواتین اس سازش کا شکار ہوتی ہیں بلکہ ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس کرتی ہیں۔ لیکن آخرکار، یہ آپس ہی کی لڑائی ہے۔ ایک بے فائدہ مقابلہ کہ جس سے نہ صرف ذاتی کیریئر متاثر ہوتا ہے بلکہ کام بھی خراب ہوتا ہے۔ خواتین کو بہت عرصے بعد اس کا اندازہ ہوا۔ اس لیے اپنی ساتھی خواتین کارکنوں کی مخالفت کے بجائے ان میں قابلِ اعتماد ساتھی تلاش کریں۔ سینئر ساتھیوں سے کچھ سیکھنے کے لیے اور جونیئرز کو کچھ سکھانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، اور اپنی قریب بیٹھنے والی کو مشکل اور آسانی کی ساتھی بنائیں۔
ساتھی خواتین کے ساتھ بول چال نہ کرنا
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے پاس کرنے کا بہت سارا کام ہے بلکہ کام کے علاوہ بھی بہت سارے معاملات دیکھنے ہوتے ہیں لیکن سارا دن کام سے لگے رہنے سے آپ کو آگے بڑھنے اور ذہنی سکون پانے کے مواقع نہیں ملنے والے۔ اگر آپ کے پاس کرنے کے لیے کام نہ بھی ہو، اور آپ ساتھی کارکنوں کے ساتھ گھلنا ملنا پسند نہیں کرتیں، تب بھی بول چال کام کی جگہ پر آپ کے آگے بڑھنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے آپ کو اپنے ‘کمفرٹ زون’ سے نکلنا ہوگا اور نئے میدانوں میں قدم رکھنا ہوگا۔ اس سے آپ کو کام کی جگہ پر دوسرے لوگوں کو سمجھنے اور مشکل حالات سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔
زیادہ کام کرنا
خواتین کے لیے ذاتی اور پیشہ ورانہ رویّوں کو الگ کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے کیونکہ فطرتاً وہ دوسروں کی مدد کی جانب مائل ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر وہ دوسروں کے دیے گئے اضافی دفتری کاموں میں پھنس جاتی ہیں۔ بلاشبہ آپ کام پر اپنی کسی ساتھی کی مدد کرنا چاہتی ہیں، اور آپ کو کبھی کبھار کرنی بھی چاہیے لیکن ان کے کام خود سنبھالنا شروع نہ کریں۔ یاد رکھیں کہ اپنے شوہر، والدین یا بچوں کے کام کے علاوہ دنیا کے ہر کام کو چھوڑا جا سکتا ہے۔ صرف اتنا کام لیں، جتنا آپ کر سکتی ہیں۔
گزشتہ دہائی میں بہت سارے اداروں نے ایسے قوانین متعارف کروائے ہیں جو خواتین کے کام کرنے کے ماحول کو بہتر بناتے ہیں جیسا کہ ماہواری کی چھٹیاں اور زچگی کی طویل چھٹیاں وغیرہ۔ ساتھ ہی چند اداروں نے نومولود کی بہتر دیکھ بھال اور بیوی کی مدد کے لیے والد کو چھٹیاں دینے کا قانون بھی بنا رکھا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والی اس پیشرفت کی طرح دورِ جدید میں کام کرنے والی خواتین کو بھی ایک دوسرے کی تائید کرنے اور اپنی کام کرنے کی اخلاقیات کو صحت مند اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
جواب دیں