ایران میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی 16 سالہ محنت بالآخر رنگ لا رہی ہے اور حکومت نے صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف تاریخی قانون کی منظوری کا ایک مرحلہ مکمل کر لیا ہے۔
صدر حسن روحانی انتظامیہ نے جس بل کی منظوری دی ہے وہ خواتین کو گھریلو اور دیگر تشدد کے خلاف تحفظ دیتا ہے۔ "تشدد کے خلاف خواتین کے تحفظ، وقار اور سلامتی” کے بل کی منظوری کابینہ کے وزراء نے دی کہ جسے پہلی بار سابق صدر محمود احمدی نژاد نے 2013ء میں متعارف کروایا تھا۔
اس نئے قانون کے تحت کوئی بھی ایسی حرکت ‘تشدد’ شمار ہوگی کہ جو عورت کو جنسی بنیاد پر یا کمزور حیثیت کی وجہ سے اسے تکلیف پہنچائے، اور اس کے جسم، ذہن، شخصیت یا وقار کو نقصان پہنچائے یا اس کے قانونی حقوق اور آزادی کو محدود کرے یا اس سے محروم کرے۔
ایرانی عدلیہ نے ستمبر 2019ء میں اس قانونی پر نظر ثانی کا عمل مکمل کیا تھا اور اب پہلے پارلیمنٹ اس پر نظر ثانی کرے گی اور پھر یہ بل منظوری کے لیے شوریٰ نگہبان کے اراکین اور مذہبی ماہرین کے پاس جائے گا۔
دسمبر میں ہیمون رائٹس واچ میں ایران کے حوالے سے تحقیق کرنے والی تارا سپہری فر نے کہا تھا کہ ایران میں خواتین پر تشدد کو روکنے اور اس کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے دہائیوں سے ایک جامع قانون کی ضرورت ہے۔ اب اس اہم مسئلے پر بہت پہلے کام کر لینا چاہیے تھا لیکن اب پارلیمنٹ کو اسے قبول کرنے میں وقت نہیں لگانا چاہیے۔
ایران کی نائب صدر برائے خواتین اور خاندانی امور معصومہ ابتکار نے کہا کہ ہے کہ یہ بل قانونی ماہرین، ججوں اور مقننہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی محنت سے تیار کیا ہے۔
اس بل میں سرکاری تنظیموں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی رہنما ہدایات شامل ہیں جیسا کہ یہ قانون عدالتوں کو ظلم کی شکار خواتین کو سہارا دینے کے لیے وسائل مقرر کرنے اور ان پر تشدد کے معاملات کے حوالے سے ججوں اور دیگر عدالتی عملے کی تربیت کی ہدایت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ عدلیہ کو ایک فنڈ کا آغاز کرنے کا مشورہ بھی دیتا ہے تاکہ تشدد کا نشانہ بننے والی اور قیدی خواتین کی مدد بھی کی جا سکے۔
علاوہ ازیں، بل کا ایک حصہ میڈیا پر ایسے پروگرامز نشر کرنے کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے جن میں خواتین کو مدد فراہم اور انہیں تشدد سے بچانے کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے۔
بل کے مطابق وزارت تعلیم سے بھی توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ طلبہ، اساتذہ اور والدین کے لیے تعلیمی کورسز تیار کرے اور تشدد کے خطرے سے دوچار طلبہ کا کھوج لگائے۔
پھر وزارت صحت خواتین کے لیے اپنی طبّی و نفسیاتی خدمات کو بہتر بنائے اور عملے کو تشدد کا نشانہ بننے والی عورتوں کو سنبھالنے کی تربیت دے گا۔
اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ایسی خواتین کو سہارا دینے کے لیے اپنی کوششیں بڑھانا ہوں گی۔
اس بل کو یہ حتمی صورت ایسے وقت میں ملی ہے جب ملک میں عورتوں پر تشدد کے چند نمایاں واقعات سامنے آئے ہیں بلکہ ستمبر میں تو یہاں "می ٹو” کی تحریک بھی شروع ہوئی۔ جبکہ ایران سمیت دنیا بھر میں کووِڈ-19 کے دوران گھریلو تشدد میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ایران میں 2014ء میں ہونے والی ایک تحقیق میں پایا گیا تھا کہ 66 فیصد شادی شدہ خواتین کو زندگی میں کم از کم ایک بار کسی نہ کسی قسم کے گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان میں سے 30 فیصد نے جسمانی تشدد سہا ہے۔
گو کہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ایران کے اس نئے قانون کو سراہ رہے ہیں، لیکن ‘ہیومن رائٹس واچ’ کا کہنا ہے کہ یہ بل اب بھی عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے کیونکہ اس میں تشدد کی چند اقسام کو جرم قرار نہیں دیا گیا جیسا کہ خاوند کے ہاتھوں ریپ اور کم عمری کی شادی۔ اس نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ نئے بل میں ان خامیوں کو دور کرے اور ملک میں خواتین اور لڑکیوں کو تشدد سے بچائے۔
Pingback: ایران ، قیدی خواتین میں کرونا وائرس پھیلنے پر تشویش - دی بلائنڈ سائڈ