جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں جنسی جرائم پر سخت ترین سزائیں ہیں، لیکن اس کے باوجود جنسی تشدد وباء کی طرح پھیل رہا ہے۔ افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان میں گینگ ریپ یا کسی کم سن کے ساتھ ریپ کرنے پر سزائے موت دی جاتی ہے، لیکن کیا یہ سزا ان واقعات کو روکنے میں کامیاب ہو پا رہی ہے؟ آخر قانون کے وہ کون سے سقم ہیں کہ جس کا فائدہ مجرم اٹھاتے ہیں اور مظلوم کے لیے انصاف کا حصول بھی عذاب بن جاتا ہے؟ اس حوالے سے امریکا میں مقیم صحافی بنساری کامدار نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں حالات کا بہترین تجزیہ کیا ہے اور حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ سزائے موت جیسے انتہائی قدم کے بجائے انہیں خطے میں جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے رحجان کے حوالے سے سماجی و قانونی مسائل سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
اپنی تحریر میں وہ لکھتی ہیں کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران بھارت، مالدیپ، پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال میں ریپ کے واقعات کے خلاف زبردست پر مظاہرے ہوئے ہیں، جن کے دوران اکتوبر 2020ء میں بنگلہ دیش حکومت نے ریپ کے مجرموں کے لیے سزائے موت کی منظوری دی۔ نیپال میں بھی "ریپسٹ کو پھانسی دو” کے عوامی مطالبات کے بعد حکومت ایسا ہی کرنے پر غور کر رہی ہے جبکہ پاکستان میں ریپ کرنے والے کو کیمیائی طور پر نامرد کرنے کا قانون بھی منظور کیا گیا ہے۔
لیکن جنسی تشدد کے خاتمے میں سزائے موت اتنی کارآمد ثابت نہیں ہو رہی۔ کئی تحقیق ثابت کرتی ہیں کہ سزائے موت کا خوف جرائم کو روکنے میں فیصلہ کُن کردار ادا نہیں کرتا، جس کی وجہ سے انسانی حقوق کے کارکنان سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا سزائے موت جیسا بڑا خطرہ مول لینا ضروری ہے جب اس کے ساتھ اضافی لاگت، غلطی کا خدشہ، غیر یقینی کیفیت اور دیگر مسائل بھی جڑے ہوئے ہیں؟ چند صورتوں میں سزائے موت اقبالِ جرم اور جرم کو رپورٹ کرنے تک میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے ممالک میں تو جنسی تشدد کے کیسز میں اقبالِ جرم کی شرح ویسے ہی بہت کم ہے۔ جیسا کہ بنگلہ دیش کو لے لیں کہ جہاں اقوام متحدہ کے ایک سروے کے مطابق ریپ کا اقرار کرنے والے 90 فیصد سے زیادہ افراد کا کہنا تھا کہ انہیں ایسا کرتے ہوئے کسی قانونی خوف کا سامنا نہیں تھا۔
بھارت میں سزائے موت کے قیدیوں میں 53 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو 2017ء میں 121 کے مقابلے میں 2018ء میں 186 ہو گئے۔ ان میں سے بڑا حصہ ایسے قاتلوں پر مشتمل ہے جنہوں نے جنسی حملے کے بعد قتل کیا۔ 2019ء میں یہ شرح 53 فیصد ایسے قاتلوں پر مشتمل تھی۔ اس کے باوجود ریپ کے واقعات میں مجرم کی جانب سے اقبالِ جرم کی شرح 2007ء سے مسلسل کم ہو رہی ہے اور 2016ء میں یہ 18.9 فیصد کی کم ترین شرح تک پہنچ گئی، جو ایک تحقیق کے مطابق 2006ء میں 27 فیصد تھی۔ باوجود اس کے کہ اس عرصے کے دوران ریپ کے کیسز رپورٹ کرنے میں اضافہ ہوا ہے۔
تو اس قانون کا من مانا استعمال کون کر رہا ہے؟ کیا ہم عدالتوں سے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ مجرم کو ضمانت کے لیے اپنے ہی شکار کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور کریں یا راکھی باندھنے جیسے اقدامات اٹھائیں اور یہ اقدامات اس مظلوم کے "بہترین مفاد” میں کہلائے جائیں؟
پاکستان میں تو ویسے ہی معاملات خراب ہیں کہ جہاں "ناکافی شہادتوں” کی بنیاد پر ملزمان دندناتے پھرتے ہیں یا پھر پولیس سرے سے گینگ ریپ کے کیسز رجسٹر کرنے سے ہی ہچکچاتی ہے کیونکہ اس کا مطلب ان کے لیے سزائے موت۔ پھر اس پورے معاملے کے دیگر کئی پہلو بھی ہیں جیسا کہ ریپ کے کیسز کا سرے سے رپورٹ ہی نہ ہونا اور یہ پورے خطے میں عام ہے۔ بڑی وجہ ہے "شرمندگی” اور "بے عزتی” کا وہ داغ، جو ریپ کی شکار خواتین کے ساتھ لگ جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو خود خاندان "غیرت” میں آ کر اس مظلوم عورت کو قتل کر دیتا ہے۔
پھر سزائے موت اور واقعات کو رپورٹ کرنے میں کمی کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ عموماً خطے میں زیادہ تر واقعات میں ریپسٹ جاننے والا ہی ہوتا ہے۔ بھارت میں رجسٹرڈ کیسز میں سے 94.6 فیصد کیسز میں ریپسٹ جاننے والا تھا۔ اس صورت میں ظلم کا شکار ہونے والی عورت پر یہ "اضافی دباؤ” ہوتا ہے کہ وہ کسی جاننے والے کو تختہ دار پر چڑھا رہی ہے اور پھر اس صورت حال میں خاندان بھی یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ مظلوم لڑکی کو مجبور کرے کہ وہ اس واقعے پر رپورٹ نہ کرے۔
سزائے موت کا خوف مجرموں کو مظلوم عورت کو قتل کرنے یا اسے اس حال تک پہنچانے پر بھی مجبور کر سکتا ہے کہ وہ انہیں پہچان نہ پائے اور یوں جرم کے تمام شواہد مٹ جائیں۔
ایک اور مسئلہ victim blaming بھی ہے، جو پورے برصغیر میں عام ہے۔ حال ہی میں موٹروے زیادتی کیس کے بعد سی سی پی او لاہور نے اُلٹا مظلوم خاتون ہی کو مشورے دینے شروع کر دیے کہ انہیں جی ٹی روڈ سے جانا چاہیے تھا، رات کو نہیں نکلنا چاہیے تھا وغیرہ۔
یہ تمام معاملات معاشرے کے امتیازات کی عکاسی کرتے ہیں اور اس امر کے واضح شواہد ہیں کہ ایسے قوانین معاشرے کو کمزور طبقات کو دباتے ہیں جبکہ امیر اور بااثر طبقے کو کھلی چھوٹ میسر ہوتی ہے۔ بھارت میں کی گئی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ ملک میں سزائے موت پانے والے ہر چار میں سے تین افراد کا تعلق یا تو مذہبی اقلیتوں سے ہے یا نچلی ذات کے لوگوں سے ہے یا تقریباً 75 فیصد افراد معاشی طور پر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔
امراء اور ذات پات کے نظام میں اونچے درجے پر موجود افراد کو جو کھلی چھوٹ حاصل ہے، وہ بھارت میں بالکل نمایاں نظر آتی ہے۔ ابھی چند روز پہلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سیاسی رہنما اور سابق رکن ریاستی قانون ساز اسمبلی نے ہاتھرس، اترپردیش میں ایک دلت خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کر کے اسے قتل کرنے والے اونچی ذات کے مجرموں کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ریاست کے وزیر اعلیٰ نے اسے ایک "بین الاقوامی سازش” قرار دیا اور بجرنگ دل، راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ اور کارنی سینا جیسے ہندو قوم پرست گروپوں کے ساتھ ساتھ بی جے پی نے بھی اس بھیانک گینگ ریپ کے مجرموں کے حق میں ریلی کا اہتمام کیا۔
دوسری طرف حال یہ ہے کہ غریب دلت خاندان کو پولیس کے دباؤ کا سامنا ہے، جس نے خاندان کی اجازت کے بغیر ہی لڑکی کی چتا جلا ڈالی۔ معاملہ تفتیشی ادارے سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کے ہاتھ میں آیا تو گینگ ریپ اور قتل میں چار اونچی ذات کے لوگوں کا پتہ چلا۔
ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کڑی سے کڑی سزا دینے سے الٹا مجرم فائدہ اٹھا رہے ہیں اور مظلوم مزید پس رہا ہے۔ سزائے موت جیسے انتہائی اقدامات دراصل معاشرے اور اداروں کی ناکامیوں پر پردہ ڈالتے ہیں کہ جن کی وجہ سے ریپ وباء کی طرح پھیل رہا ہے۔ اس سے لوگوں کی توجہ جنسی تشدد کو رپورٹ نہ کرنے، اقرارِ جرم کی شرح کم ہونے، جنسی مجرموں کو کھلی چھوٹ دینے اور علاقائی عدالت نظام میں عورت کو کم تر سمجھنے کے گمبھیر مسائل سے ہٹ جاتی ہے۔
مختصر یہ کہ ریپ کو روکنے کے لیے سزا کا یقینی ہونا کہیں زیادہ بہتر رکاوٹ بن سکتا ہے، بجائے اس کے کہ اس کی شدت کا تعیّن کر کے مزید مسائل کھڑے کیے جائیں۔
جواب دیں