یہ کشمیر کی ایک سرد صبح ہے کہ جس میں 65 سالہ نور کا خاندان اپنی 21 سالہ بیٹی کے موت کے صدمے سے دوچار ہے، جسے اکتوبر میں ایک شادی کے تقریب کے دوران دو لوگوں نے اغواء کر کے اس کا ریپ کیا تھا۔ اسے بُری حالت میں سری نگر کے ایک ہسپتال لایا گیا جہاں وہ ایک مہینے تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد بالآخر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔
یہ اکتوبر کے آخری ایام تھے جب نور کی بیٹی، جو آرٹس کے فائنل ایئر کی طالبہ تھی، اپنی کزن کی شادی میں شرکت کے لیے اسی ضلع کے گاؤں اکھال اپنے رشتہ داروں کے گھر تھی۔ 31 اکتوبر کی صبح تقریباً 10 بجے وہ شادی کے لیے دلہن کا لباس لینے سے گھر سے نکلی، جہاں سے واپسی پر دو لوگوں نے اسے اغواء کر لیا۔ ایک رشتہ دار کے مطابق اغواء کے بعد اسے وہ اسے ایک باغ میں لے گئے، اس کے ساتھ ریپ کیا اور بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔
مقامی افراد کو وہ اسے نیم غنودگی کے عالم میں زمین پر پڑی ہوئی ملی۔ اسے کلگام ڈسٹرکٹ ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے سری نگر لے جانے کو کہا۔ یہاں ڈاکٹر فاروق جان کے مطابق اسے انتہائی نازک حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا اور تقریباً ایک ماہ انتہائی نگہداشت میں رہنے کے بعد 27 نومبر کو اس کی موت ہو گئی۔
خاندان کے مطابق اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایک قریبی رشتہ دار کا کہنا ہے کہ "اس کے ساتھ جو ہوا وہ کسی انسان کا کام نہیں لگتا تھا۔ بری طرح مارا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ گلے میں بندھے تعویذ کے دھاگے سے اس کا گلا بھی دبایا گیا۔ اس کی زبان بھی کاٹی گئی۔ ہم تصور نہیں کر سکتے کہ اس نے کس تکلیف دہ موت کا سامنا کیا۔”
رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ دونوں اسے قتل کرنا چاہتے تھے لیکن مقامی لوگوں نے انہیں دیکھ لیا اور دونوں پکڑے گئے۔ انہیں بعد ازاں پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
کرائم برانچ سری نگر وادی اپنے ریپ کیسز کی پیروی کرنے والی خواتین کی مایوس کُن تصویر پیش کرتی ہے کہ جن کے مقدمات سالوں تک چلتے رہتے ہیں۔ گزشتہ چھ سال کے ڈیٹا کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں اس وقت 1,046 ریپ کیسز زیرِ سماعت ہیں، جن میں سے 831 سن 2014ء سے زیر التواء ہیں۔ ان میں سے 820 کیسز میں زیادتی کا نشانہ بننے والی کم عمر بچیاں ہیں۔ 2019ء کے پہلے تین ماہ میں جموں و کشمیر میں ریپ کے 64 کیسز سامنے آئے کہ جن میں سے 33 کم عمر لڑکیوں کے تھے۔ ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ پچھلے چھ سالوں میں ایسے کیسز میں ملزمان کو سزا ملنے کی شرح 5 فیصد سے بھی کم ہے۔
خبروں کے مطابق 2020ء میں اپریل کے مہینے تک کی ایک رپورٹ جموں و کشمیر انتظامیہ نے عدالت میں پیش کی، جو ظاہر کرتی ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ریپ کے 16 اور دست درازی کے 64 معاملات رپورٹ ہوئے۔ ان سے صاف نظر آتا ہے کہ عورتوں کے خلاف جرائم کس قدر عام ہیں۔
یہ اعداد و شمار 2014ء میں 352 رجسٹرڈ کیسز ظاہر کرتے ہیں کہ جن میں سے 265 کم عمر بچیوں کے ساتھ ہیں۔ جبکہ 2015ء، 2016ء اور 2017ء میں بالترتیب 312 (251 کم عمر)، 263 (204 کم عمر) اور 314 (213 کم عمر کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔ 2018ء میں ریپ کے 359 کیسز ریکارڈ کیے گئے جن میں سے 273 کم عمر تھیں۔
21 سالہ لڑکی کے وحشیانہ ریپ اور قتل کے بعد کشمیر میں جو ردعمل تھا وہ تقریباً ایک جیسا ہی تھا، یعنی خاموشی۔ مقامی سطح پر کچھ مظاہرے ضرور ہوئے اور ریپ کرنے والے قاتلوں کے خلاف فوری کارروائی کے مطالبات بھی کیے گئے، لیکن اس واقعے نے مقامی اور قومی سطح پر وہ تہلکہ نہیں مچایا۔
مقتولہ کی بڑی بہن کا کہنا ہے کہ "اس خاموشی پر کیا کہیں؟ کیا اب معاشرے پر ایسے بھیانک جرائم کا اثر بھی نہیں ہوتا؟ وادی کشمیر اپنے اخلاقی طور پر بہتر کلچر کی وجہ سے جانی جاتی تھی، لیکن اب لگتا ہے کسی کو کسی کی پروا نہیں۔”
کشمیر میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ازابیر علی کہتی ہیں کہ یہ حیران کُن خاموشی اس طرح کے تشدد کو مزید بڑھاوا دے گی۔ "مقامی خبری اداروں نے بھی اس معاملے کی کوئی خاص پیروی نہیں کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں نے اب ایسے معاملات پر بات کرنا چھوڑ دیا ہے، شاید اس لیے کہ شکار لڑکی مقامی تھی۔ اگر کوئی باہر کا ہوتا تو شاید کچھ ہنگامہ ضرور پیدا ہوتا۔”
وہ سمجھتی ہیں کہ معاشرے کا یہ رویہ خواتین کو ملنے والی آزادی کو مزید محدود کرے گا۔ "لڑکیوں اور خواتین کی نقل و حرکت میں واقعتاً کمی آئے گی۔ انہیں خاندان والوں کی جانب سے باہر قدم رکھنے کی اجازت بھی نہیں ملے گی۔”
اس 21 سالہ کشمیری لڑکی کی موت کے چند دنوں بعد ضلع کلگام کے علاقے دیوسر میں ایک ایسا ہی جرم سرزد ہوا۔ 17 سال کی لڑکی کا ریپ کیا گیا۔ اس کی ریکارڈنگ موبائل فون پر کی گئی اور بعد ازاں مجرم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر بھی کی۔ البتہ پولیس نے فوری کارروائی کی اور چند ہی گھنٹوں میں اسے گرفتار کر لیا۔
ریاست کے ویمن کمیشن کی سابق چیئرپرسن نعیمہ مہجور کے مطابق ماضی میں وادی میں جنسی ہراسگی کے کسی بھی مجرم کو بدترین ذلت اور خفگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ریپ کے واقعات چند دہائیوں پہلے شروع ہوئے تھے۔ ایسے واقعات بھی ہوئے کہ جنہوں نے پوری وادی کو ہلا کر رکھ دیا۔” وہ سمجھتی ہیں کہ ان علاقوں میں کہ جہاں سب کچھ سکیورٹی اور دہشت گردی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، سب سے زیادہ عورتیں متاثر ہوتی ہیں۔
اس وحشیانہ ریپ اور قتل کے واقعے نے اس علاقے کی خواتین کو محض صدمے سے ہی دوچار نہیں کیا بلکہ ان کی آزادی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ایک دیہاتی خاتون کے مطابق "اس واقعے کے بعد ہم کھیتوں میں جاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ اگر بہت ضروری ہو تو ٹولیوں میں جاتے ہیں اور عموماً ہمارے ساتھ خاندان کے مرد بھی ہوتے ہیں۔”
بدترین ظلم کا نشانہ بننے والی ایک لڑکی کی رشتہ دار نے بتایا کہ "میں نے ڈگری کالج، کلگام میں گریجویشن کے دوسرے سال میں داخل لیا تھا۔ اس واقعے کے بعد میرے والدین نے مجھے صاف صاف کہہ دیا کہ میں تعلیم کے لیے بھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتی۔ ان کے لیے میری زندگی کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ اہم ہے۔”
اس کیس میں ملزمان 18 سالہ عادل احمد ڈال اور 24 سالہ وسیم احمد ڈار ہیں۔ دونوں کلگام کے آشموجی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق "دونوں یتیم ہیں۔ وسیم بس ڈرائیور ہے جبکہ عادل دسویں کلاس کا طالب علم ہے۔ دونوں نشے کی لت میں بھی مبتلا رہے ہیں۔”
لڑکی کی سب سے بڑی بہن کا کہنا ہے کہ "اس واقعے کو ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن ملزمان پولیس کی تحویل میں محفوظ ہیں اور میری بہن قبر میں ہے۔”
ان کے خاندان کا مطالبہ ہے کہ ان کی بچی کو جلد انصاف دیا جائے۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کو جلد ہی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ انہیں اغواء، ریپ اور تشدد کے الزامات کا سامنا تھا جبکہ لڑکی کے مرنے کے بعد پولیس نے اس میں قتل کی دفعہ 302 بھی شامل کر دی گئی ہے۔
Pingback: مقبوضہ کشمیر میں خواتین فوجیوں کی تعیناتی، صنفی مساوات کے نام پر صنفی مظالم کو چھپانے کی کوشش - دی بلائنڈ سائڈ