کسی بھی عالمی بحران کے نتیجے میں معاشرے کی خامیاں اور کمزوریاں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں، عدم مساوات کہیں زیادہ اضافہ ہوتا ہے اور معاشرے کے چند طبقات خاص طور پر بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ کووِڈ-19 نے بھی یہی ثابت کیا۔ میلنڈا گیٹس کے بقول اس وباء سے خواتین زیادہ متاثر ہوئیں اور دنیا بھر میں ان کے روزگار کو مردوں سے دو گُنا زیادہ خطرہ لاحق ہے۔
اس بحران سے جنم لینے والے معاشی اثرات ایک طرف بھی رکھ دیں تو سماجی مسائل، مثلاً گھریلو تشدد، میں زبردست اضافہ بھی دیکھنے کو ملا۔ لاک ڈاؤن لگنے اور قرنطینہ جیسے اقدامات کی وجہ سے گھریلو تشدد کے واقعات میں پچھلے سال غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا کیونکہ خواتین اپنے گھروں میں اپنے ظالم ساتھیوں کے ہمراہ رہنے پر مجبور تھیں۔
لیکن اس کے باوجود 2020ء میں کئی ایسی داستانیں سامنے آئیں جو اپنے حقوق کے لیے خواتین کی بھرپور جدوجہد کی عکاسی کرتی ہیں کہ انہوں نے اس طرح رکاوٹیں عبور کر کے ایسے مواقع پیدا کیے جو پہلے کبھی میسر نہیں تھے۔
صحت کے شعبے سے وابستہ کارکنان نے کرونا وائرس کا صفِ اول میں مقابلہ کیا، یہ ایسا شعبہ ہے کہ جس میں 70 فیصد خزاتین ہیں لیکن اس شعبے میں اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود فیصلہ ساز سینیئر عہدوں پر خواتین کی تعداد محض 25 فیصد ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ اگر صحت کے عالمی نظام میں خواتین کے قائدانہ کردار کو بڑھانے کا کوئی بہترین وقت ہے تو یہی ہے۔
اپنے ملکوں میں کووِڈ-19 سے دست بدستہ لڑائی سے لے کر حقوق نسواں کے لیے قانونی جنگ جیتنے تک، ہم نے 2020 ء میں چند فیصلہ کن لمحات دیکھے۔
کووِڈ-19 بحران سے دست بدست لڑائی
کرونا وائرس کی وباء نے خواتین کی قائدانہ صلاحیتوں کو بخوبی ظاہر کیا، اتنا زیادہ کہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ جن ملکوں میں خواتین کی حکمرانی ہے وہاں کووِڈ-19 سے ہونے والی اموات ان ملکوں سے چھ گُنا کم ہیں جہاں مرد حکمران ہیں۔ خواتین نے زیادہ مؤثر انداز سے اپنے ملکوں میں کارِ سرکار چلائے اور وباء کے اثرات کو جلد از جلد کم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
انگیلا مرکیل کی زیر قیادت جرمنی میں وباء سے اموات کی شرح برطانیہ، اٹلی، فرانس اور اسپین سے بھی کم تھی۔ سائی اِنگ-وین کی قیادت میں تائیوان وائرس کو محدود کرنے کے لیے کامیاب ترین مقامات میں شمار ہوا۔ بروقت مؤثر ٹیسٹنگ، بیمار افراد کو تنہا کرنے اور چہرہ ڈھانپنے کے قانون کے سخت نفاذ کے ذریعے تائیوان نے اس بحران پر بخوبی قابو پایا۔
نیوزی لینڈ نے بھی اپنے پڑوسی ممالک کے مقابلے میں کہیں مختصر لاک ڈاؤن کے ساتھ ایسا کر دکھایا اور یوں پہلا ملک بنا جس نے کووِڈ-19 کا عارضی طور پر خاتمہ کر دیا۔ خواتین کی سیاسی نمائندگی اور قائدانہ صلاحیت کو جس طرح نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈیرن سامنے لائیں، کوئی بھی نہیں لایا ہوگا۔ انہوں نے 2020ء کے قومی انتخابات میں بھی فیصلہ کن کامیابی حاصل کی اور نصف سے زیادہ نشستیں ان کی جماعت کو ملیں۔ اس کے علاوہ آرڈیرن نے صنفی، نسلی اور مقامی نمائندگی کے لحاظ سے ایک جامع پارلیمنٹ اور کابینہ بھی دنیا کے سامنے پیش کی۔
ان شاندار کامیابیوں کے باوجود دنیا میں آج بھی سیاسی اختیارات کے لحاظ سے خواتین پیچھے ہیں اور صنفی عدم مساوات کا خلاء بدستور بڑھتا جا رہا ہے۔ IPU جینڈر ایکوالٹی رپورٹ کے مطابق موجودہ شرح سے اس خلاء کو پُر کرنے میں 99 سال سے زیادہ کا عرصہ لگے گا۔
امریکی نائب صدر کے عہدے تک رسائی
امریکی منتخب نائب صدر کملا ہیرس نے انسانی تاریخ میں کئی نئے صفحات کا اضافہ کیا ہے۔ وہ امریکا کی پہلی سیاہ فام، پہلی ایشیائی امریکن اور پہلی خاتون نائب صدر بنی ہیں۔ کامیابی کے بعد اپنی تقریر میں بھی انہوں نے سیاہ فام خواتین سمیت ان تمام خواتین کو "جنہوں نے برابری، آزادی اور یکساں انصاف کے لیے جدوجہد کی اور قربانیاں دیں” امریکی جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا۔ "میں اس عہدے پر پہلی خاتون ضرور ہوں گی، لیکن آخری نہیں۔” انہوں نے کہا۔
سعودی عرب میں مزید نرمیاں
سالِ گزشتہ میں سعودی عرب میں خواتین کو بھی محرم کی اجازت کے بغیر سفر کرنے کی اجازت مل گئی۔ اگست میں منظور شدہ قانون کے تحت اب 21 سال سے زیادہ عمر کی خواتین پاسپورٹ کے لیے درخواست دے سکتی ہیں اور محرم کی اجازت کے بغیر سفر کر سکتی ہیں۔ حال ہی میں خواتین کو پیدائش، شادی یا طلاق کی رجسٹریشن کا حق بھی دیا گیا ہے۔
پاکستان میں ریپ کے خلاف قانون سخت ترین
ملک میں ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے گزشتہ سال پاکستان نے دو اینٹی-ریپ قوانین کی منظوری دی، جن میں ریپ کی تعریف کو بھی واضح کیا گیا ہے اور مرتکب مجرموں کو کیمیائی طور پر نامرد بنانے بلکہ پھانسی دینے کی سزا تک شامل کی گئی ہے۔ پاکستان نے پہلی بار خواجہ سراؤں اور گینگ ریپ کی اصطلاح کو بھی اس قانون کا حصہ بنایا ہے اور ساتھ ہی متنازع ‘ٹُو فنگر’ ٹیسٹ پر بھی پابندی عائد کی ہے۔ اس سے پہلے پاکستان نے غیرت کے نام پر قتل اور تیزاب پھینکنے کے جرم میں ملوث افراد کو خاندان کی جانب سے معاف کرنے کے واقعات کو روکنے کے لیے قانونی سقم کا خاتمہ بھی کیا۔
جواب دیں