مصر میں خواتین کے حقوق کے لیے کوشاں کارکنان کو ایک ناقابلِ یقین کامیابی ملی ہے، کیونکہ اُس 22 سالہ طالب علم کو عدالت نے تین سال قید کی سزا دے دی ہے کہ جس نے دو خواتین کو سوشل میڈیا کے ذریعے جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔
احمد باسم زکی نامی اس نوجوان کو جولائی میں قاہرہ سے گرفتار کیا گیا تھا جہاں وہ مشہور امریکن یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ اس کے خلاف الزامات سے ملک میں "می ٹو” مہم کا آغاز ہوا اور خواتین اپنے خلاف پیش آنے والے واقعات کو سامنے لائیں۔
سائبر کرائمز کا احاطہ کرنے والی عدالت نے زکی کو ان خواتین کو فحش تصاویر اور پیغامات بھیجنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے قید کی سزا دی ہے۔ البتہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔
زکی کو تین کم عمر کی لڑکیوں پر حملہ کرنے اور انہیں بلیک میل کرنے کے الزامات کا بھی سامنا ہے، جن پر ایک فوجداری عدالت جنوری سے سماعت کرے گی۔
یہ معاملہ جولائی میں منظر عام پر آیا تھا جب چند خواتین نے ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ کے ذریعے زکی پر الزامات لگائے اور ان کے ثبوت پیش کیے۔ کئی خواتین اس کی جماعت تھیں اور انہوں نے ریپ اور حملے کے ساتھ ساتھ بلیک میل کرنے کے الزامات بھی لگائے۔ ان میں 14 سال کی عمر تک کی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔
زکی نے 6 خواتین سے بذریعہ سوشل میڈیا رابطہ کرنے، ان سے تصویریں حاصل کرنے اور پھر انہیں دھمکانے کے جرم کا اقرار کیا ہے۔ اس نے ان خواتین کو بلیک میل کیا تھا کہ اگر انہوں نے رابطہ ختم کرنے کی کوشش کی تو وہ ان کی تصویریں ان کے گھر والوں کو دکھا دے گا۔
اس مقدمے نے مصر میں بہت مقبولیت حاصل کی کہ جہاں حقوقِ نسواں کے لیے کام کرنے والی کارکنوں کے مطابق جنسی حملے عام ہیں، لیکن انہیں سنجیدہ نہیں لیا جاتا اور عموماً اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد قانون کی زد سے نکل جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے ‘یو این ویمن’ کی 2013ء میں کی گئی تحقیق کے مطابق 99 فیصد خواتین نے کہا کہ انہیں زبانی یا جسمانی طور پر جنسی ہراسگی کا سامنا رہا ہے۔
ریپ کے حوالے سے قانون تو پہلے سے موجود ہیں لیکن جنسی ہراسگی کو 2014ء میں غیر قانونی حیثیت ملی تھی۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی چند کارکنوں کا کہنا ہے کہ ملک میں حقوقِ نسواں اور ان پر جنسی حملوں کے حوالے سے رویّوں میں بہتری آ رہی ہے۔ جولائی میں کئی معروف شخصیات نے بھی زکی پر الزامات لگانے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کی۔ ایک سال پہلے مشہور جامعہ الازہر نے بھی بیان جاری کیا تھا جس میں جنسی ہراسگی کی سختی سے مذمت کی گئی تھی اور خواتین کے لباس کو ان پر حملے کا جواز تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
Pingback: مصر کو خواتین کے خلاف ریاستی جبر کا خاتمہ کرنا ہوگا، کھلا خط - دی بلائنڈ سائڈ