قومی اسمبلی کے 104 حلقوں میں مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد میں 50 ہزار سے زیادہ کا فرق

پاکستان کے تین صوبوں میں قومی اسمبلی کے 12 حلقے ایسے ہیں کہ جہاں کُل ووٹرز میں خواتین کی شرح 41 فیصد سے بھی کم ہے۔ ان میں سے 6 حلقے صوبہ خیبر پختونخوا میں، 4 سندھ اور دو بلوچستان میں ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر موجودہ حلقہ وار ووٹرز کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ این اے-50 جنوبی وزیرستان صنفی برابری کے حوالے سے پاکستان کا بدترین حلقہ ہے۔ یہاں پر رجسٹرڈ مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد کے درمیان جو فرق ہے، وہ خواتین کے کُل ووٹوں سے بھی زیادہ ہے۔ یعنی اس حلقے میں کُل 1,22,563 مرد ووٹرز ہیں جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 56,733 ہے۔ یوں دونوں کے مابین 65,830 ووٹوں کا فرق ہے، یعنی خواتین کے رجسٹرڈ ووٹوں سے بھی زیادہ۔

دوسرا بدترین حلقہ این اے-263 قلعہ عبد اللہ، بلوچستان ہے، جہاں کُل ووٹوں میں مرد ووٹرز کی تعداد 1,89,419 یا 64.17 فیصد ہے۔ ان کے مقابلے میں خواتین ووٹرز کی تعداد صرف 1,05,747 یعنی کُل 2,95,166 ووٹوں کا صرف 35.83 فیصد۔ یعنی مرد ووٹرز کی تعداد عورتوں سے 83,672 زیادہ ہیں۔

اسی طرح صنفی عدم مساوات رکھنے والے دیگر حلقہ جات میں این اے-48 شمالی وزیرستان، این اے-42 مہمند، این اے-51 قبائلی علاقہ، این اے-250 کراچی غربی III، این اے-264 کوئٹہ I، این اے-249 کراچی غربی II، این اے-7 دیر زیریں II، این اے-238 ملیر III، این اے-5 دیر بالا اور این اے-248 کراچی I ہیں۔

قومی اسمبلی کے کُل 272 حلقوں میں سے 104 ایسے ہیں جہاں مرد اور خواتین ووٹرز کے درمیان فرق 50 ہزار ووٹوں سے زیادہ کا ہے۔ ان میں پنجاب کے 141 میں سے 60 حلقے شامل ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں 51 میں سے 28، سندھ میں 61 میں سے 13 اور بلوچستان میں 16 میں سے تین حلقے ایسے ہیں۔

11 حلقوں میں یہ فرق 70 ہزار سے بھی زیادہ ہے، جن میں این اے-5 دیر بالا، این اے-48 شمالی وزیرستان، این اے-263 قلعہ عبد اللہ، این اے-250 کراچی غربی III، این اے-87 حافظ آباد I، این اے-122 شیخوپورہ IV، این اے-35 بنوں، این اے-246 کراچی جنوبی I، این اے-77 نارووال، این اے-259 ڈیرہ بگٹی اور این اے-138 قصور II شامل ہیں۔

اس کے برعکس قومی اسمبلی میں 20 حلقے ایسے ہیں کہ جہاں خواتین ووٹرز کی شرح 47 فیصد سے زیادہ ہے۔ ان میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تینوں حلقے شامل ہیں اور باقی 17 حلقے پنجاب میں ہیں۔ باقی کسی دوسرے صوبے میں ایسا کوئی حلقہ موجود نہیں کہ جہاں کُل ووٹرز میں خواتین کی تعداد 47 فیصد سے زیادہ ہو۔ البتہ پنجاب میں راولپنڈی کے ساتوں حلقے جبکہ چکوال، اٹک، جہلم اور خوشاب کے بھی سارے حلقے ایسے حلقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان سب علاقوں میں قومی اسمبلی کی تعداد دو، دو ہے۔

این اے-64 اور این اے-65 چکوال میں خواتین ووٹرز کی شرح بالترتیب 49.32 اور 48.60 فیصد ہے۔ این اے-64 میں مرد ووٹرز 2,94,150 یعنی 50.58 فیصد ہیں جبکہ خواتین 2,86,278 یعنی 49.32 فیصد ہیں، یعنی ان کے درمیان فرق صرف 7,872 یا 1.36 فیصد کا ہے۔ جبکہ لاہور کے 14 حلقوں میں صرف این اے-130 ایسا حلقہ ہے کہ جہاں خواتین ووٹرز کی شرح 47 فیصد سے زیادہ ہے۔ یہاں مرد 2,94,276 یعنی 52.11 فیصد ہے جبکہ 2,70,470 یعنی 47.89 فیصد خواتین ہیں۔ ایسے ہی دیگر حلقوں میں این اے-54 اسلام آباد III، این اے-60 راولپنڈی IV، این اے-93 خوشاب I، این اے-57 راولپنڈی-I، این اے-63 راولپنڈی VII، این اے-67 جہلم II، این اے-53 اسلام آباد II، این اے-59 راولپنڈی III، این اے-62 راولپنڈی VI، این اے-52 اسلام آباد I، این اے-55 اٹک I، این اے-94 خوشاب II اور این اے-71 گجرات IV شامل ہیں۔

One Ping

  1. Pingback: پاکستان، 81 اضلاع میں خواتین ووٹرز کی تعداد مردوں کے مقابلے میں 10 فیصد کم - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے