آج 27 دسمبر ہے، وہ دن جب پاکستان بے نظیر سے محروم ہوا۔ 2007ء میں آج ہی کے دن راولپنڈی میں ایک بم دھماکے میں بے نظیر بھٹو کی جان چلی گئی تھی اور وہ اپنے والد اور بھائیوں کی طرح غیر فطری موت کا شکار ہو گئیں۔
آج 13 سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی پاکستانی بے نظیر بھٹو کو نہیں بھولا ہوگا۔ ملک کے کئی اہم تعلیمی ادارے اور ہسپتال آج بے نظیر سے موسوم ہیں، بلکہ ملک کا سماجی بہبود کا سب سے بڑا منصوبہ ان کے سیاسی مخالفین کے دور میں بھی ‘بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام’ کے نام ہی سے چلتا رہا اور اب بھی جاری و ساری ہے۔ صوبہ سندھ کا ایک ضلع بھی ‘شہید بے نظیر آباد’ کہلاتا ہے لیکن یہ سب کچھ اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے کافی نہیں ہے جو ‘بی بی’ کے جانے سے پیدا ہوا۔ آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ بے نظیر بھٹو کو کس نے قتل کیا؟ اسی طرح جیسے آج تک لیاقت علی خان کے قاتلوں کا پتہ نہیں چل پایا یا ضیاء الحق کے طیارہ حادثے کے پس پردہ عناصر بے نقاب نہیں ہو سکے۔
بے نظیر بھٹو 21 جون 1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں، جب یہ شہر ملک کا دارالحکومت تھا۔ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو ملکی سیاست میں اثر و رسوخ پیدا کر رہے تھے، یہاں تک کہ وزارت عظمیٰ تک جا پہنچے۔ ان دنوں ننھی بے نظیر کو اپنی گلابی رنگت کی وجہ سے ‘پنکی’ کہا جاتا تھا اور یہی نام ان کے اسکول بلکہ آکسفرڈ اور ہارورڈ میں تعلیم کے دوران بھی معروف رہا۔
بے نظیر نے 1973ء میں ہاروڈ سے اور بعد ازاں 1976ء میں آکسفرڈ سے بی اے کیا۔ یہاں وہ آکسفرڈ یونین کی پہلی ایشیائی خاتون صدر بھی بنیں، لیکن تب تک بے نظیر نے زندگی کا ایک ہی رُخ دیکھا تھا، اچانک انہوں نے خود کو سیاست کے میدانِ کارزار میں پایا، جب 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے ان کے والد کا تختہ الٹ دیا۔
1979ء میں ایک سیاسی حریف کے قتل کے الزام میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور یوں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت بے نظیر اور ان کی والدہ نصرت بھٹو کے پاس آ گئی۔ ملک پر آمریت کا راج تھا، ان خاتون رہنماؤں کا آدھا وقت قید خانوں اور باقی نظر بندی میں گزرتا، لیکن 1988ء میں ضیاء الحق کی طیارہ حادثے میں موت کے بعد ملک سے آمریت کے بادل چھٹ گئے اور جمہوریت کا ایک نیا باب کھلا۔
1988ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کیوں اور وہ صرف 35 سال کی عمر میں نہ صرف ملک بلکہ پوری مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔ لیکن "دخترِ پاکستان” کی حکومت زیادہ عرصے نہیں چل سکی، دسمبر 1988ء میں شروع ہونے والا پہلا دورِ حکومت اگست 1990ء میں ختم ہوا، جبکہ اکتوبر 1993ء میں انہیں دوبارہ منتخب کیا گیا تو بھی ان کی حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکی اور نومبر 1996ء میں ایک مرتبہ پھر ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔
بے نظیر ایک کرشماتی شخصیت کی حامل تھیں، کوئی بھی آمر ان کا وجود برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ جس طرح ضیاء الحق نے نہیں کیا، اسی طرح پرویز مشرف نے بھی نہیں۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی کے آخری 9 سال جلا وطنی میں گزارے، یہاں تک کہ 2007ء کے اواخر میں وطن واپس آنے میں کامیاب ہو گئیں، اپنی موت کے بلاوے پر۔
اکتوبر 2007ء میں کراچی پہنچنے پر ان کا ایک فقید المثال استقبال کیا گیا، ایک قافلے کی صورت میں وہ اپنی رہائش گاہ کی جانب رواں تھیں کہ شاہراہ فیصل پر ان پر دو خودکش حملے ہوئے اور تقریباً 150 لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ بے نظیر بال بال بچ گئیں، لیکن وہ ایک دلیر خاتون تھیں، ہتھیار ڈالنے کو تیار نہ ہوئیں۔ 27 دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ، راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد ان کی گاڑی کے قریب ایک دھماکا ہوا جس میں ان کی جان چلی گئیں، اسی لیاقت باغ میں کہ جہاں 1951ء میں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
پاکستان ترقی پذیر دنیا کا واحد ملک نہیں تھا کہ جہاں کوئی خاتون اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچی ہوں۔ 1960ء میں سریماوو بندرانائیکے سری لنکا اور 1966ء میں اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم بنیں، بے نظیر بھٹو کے بعد 1991ء میں خالدہ ضیاء بنگلہ دیش میں اسی عہدے تک پہنچیں لیکن انہی ملکوں میں خواتین کی حالت اب بھی قابلِ رحم ہے۔ صنفی مساوات کے حوالے سے یہی ممالک دنیا میں کافی پیچھے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کو بھی اپنے دورِ حکومت میں جن سخت مزاحمتوں کا سامنا تھا، ان کا ایک سبب ان کا عورت ہونا بھی تھا کیونکہ ملک کی قدامت پسند طاقتیں ایک عورت کی سربراہی نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔ لیکن بے نظیر کی کامیابی پھر بھی پاکستان میں عورت کی کامیابی سمجھی جاتی ہے لیکن کیا یہ واقعی پاکستان میں خواتین کی حقیقی فتح تھی؟ کیا بے نظیر نے ملک میں عورتوں کو آگے بڑھانے اور بااختیار بنانے کے لیے اپنے عہدے کا بھرپور استعمال کیا؟ جتنا وہ کر سکتی تھیں شاید انہوں نے کیا بھی، لیکن اب اس کام کو آگے بڑھانا ان کے سیاسی جانشینوں کا کام ہے۔
جواب دیں