موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا میں تقریباً دو کروڑ افراد کو پہلے ہی نقل مکانی پر مجبور کر چکی ہے اور اگر عالمی حدّت اسی طرح بڑھتی رہی تو یہ تعداد صرف 30 سال میں تین گُنا سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے اور 2050ء تک خطے میں 6 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ افراد نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔
عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی سے دریاؤں کے بہاؤ میں تبدیلیاں آر ہی ہیں اور سمندروں کی سطح بڑھ رہی ہے۔ اس صورت میں لوگ اپنے دیہات کے سمندروں کی زد میں آنے یا خشک سالی کی وجہ سے زمینیں قابلِ کاشت نہ رہنے کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس میں سیلاب اور طوفانی جیسی آفات کے باعث ہجرت کرنے والے شامل نہیں ہیں یعنی کہ وہ کم از کم تعداد ہوگی جو ‘نارمل حالات’ میں متاثر ہو سکتی ہے۔
یہ اندازے ‘ایکشن ایڈ’ اور ‘کلائمٹ ایکشن نیٹ ورک ساؤتھ ایشیا’ نے اپنی رپورٹ میں لگائے ہیں۔ ایکشن ایڈ میں گلوبل کلائمٹ کے سربراہ ہرجیت سنگھ کہتے ہیں کہ حالات کہیں زیادہ تباہ کُن ہو سکتے ہیں۔ کئی لوگ کام کی تلاش میں دیہات سے قصبہ جات اور شہروں میں منتقل ہو جائیں گے۔ جہاں ان کی منزلیں کچی آبادیاں ہی ہوں گی، جو ویسے ہی سیلابوں کی زد میں ہیں اور یہاں زندگی کی عام سہولیات تک رسائی بھی کم ہوگی۔ کام بھی معمولی کرنا پڑیں گے جیسا کہ رکشہ چلانا، مزدوری کرنا یا کسی گارمنٹ فیکٹری میں ملازمت۔
ہرجیت سنگھ کہتے ہیں کہ دنیا کے پالیسی ساز اس حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں۔ انہیں اس مسئلے کی شدت کا اندازہ ہی نہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ اس صورت حال سے کیسے نمٹیں گے۔ انہوں نے ترقی یافتہ ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ آلودگی کو گھٹانے کے لیے اپنی کوششوں کو بہتر بنائیں اور آلودگی سے پاک ترقی کے لیے جنوبی ایشیائی ممالک کو سرمایہ دیں اور نئے حالات سے نمٹنے میں ان کی مدد بھی کریں۔
رپورٹ کہتی ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 2 درجہ سینٹی گریڈ سے کم رکھنے کا ہدف کامیابی سے حاصل ہو گیا تو 2050ء تک پاکستان، بھارت بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال میں نقل مکانی پر مجبور ہونے والے افراد کی تعداد آدھی ہو سکتی ہے۔
یہ رپورٹ 2018ء میں عالمی بینک کی تحقیق کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے، جس کا کہنا ہے کہ کہ موسمیاتی تبدیلی کا عمل ایسے ہی جاری رہا تو 2050ء تک وسطی افریقہ، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکا میں 140 ملین سے زیادہ لوگ اپنے ہی ملک میں نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔
لیکن نئی رپورٹ میں اس تحقیق میں چند نئے پہلوؤں کا اضافہ بھی کرتی ہے، جیسا کہ سطح سمندر میں اضافہ، ماحولیاتی نظام کو پہنچنے والے نقصانات اور خشک سالی بڑھنے کے عناصر۔ اگر یہ تمام عوامل ملائے جائیں تو ابتدائی اندازوں سے تقریباً 50 فیصد زیادہ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔
اعداد و شمار کے مطابق 2050ء تک سب سے زیادہ لوگ بھارت میں ہجرت پر مجبور ہوں گے، جن کی تعداد 45 ملین سے زیادہ ہوگی۔ لیکن سب سے زیادہ تیزی سے اضافہ بنگلہ دیش میں ہوگا کہ جہاں یہ شرح آج کے مقابلے میں سات گُنا زیادہ ہوگی۔
رپورٹ میں موسمیاتی حالات کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے چند لوگوں کی مثالیں بھی دی گئی ہیں جیسا کہ پاکستان کے ضلع تھرپارکر کی 37 سالہ راجو اور ان کا شوہر ہیں۔ خشک سالی کے اثرات سے بچنے کے لیے وہ تین سال میں تین مرتبہ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ اس دوران راجو کا حمل بھی ضائع ہوا اور انہیں علاج معالجے کے لیے ایک زمیندار سے ادھار بھی لینا پڑا۔
رپورٹ جنوبی ایشیا کی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والی نقل مکانیوں اور مستقبل میں ایسی ہجرت پر مجبور ہونے والے افراد کی تعداد کو محدود کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔ اس کی تجاویز میں متاثرہ افراد کے لیے نقد رقوم اور روزگار کا بندوبست کر کے سوشل پروٹیکشن سسٹمز کو مضبوط کرنا اور شہروں میں منتقل ہونے والے افراد کو ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ بھی شامل ہیں۔
اس ممکنہ ہجرت کو روکنے میں مدد دینے والے اقدامات میں کاشت کاری کے ایسے طریقے متعارف کروانا بھی شامل ہے کہ جن سے مٹی کی زرخیزی برقرار رہے، کھیتی باڑی میں پانی کو مؤثر انداز میں استعمال کرنے کے طریقے، منڈیوں تک رسائی کو بہتر بنانا اور نئی فصلوں کے تجربات کر کے پیسے کمانے کے نئے طریقے دریافت کرنا بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں حکومتوں سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ لوگ جس جگہ نقل مکانی کریں، وہاں کی زمین ان کے لیے محفوظ اور زرخیز ہونی چاہیے، اور انتظامیہ یقینی بنائے کہ ان لوگوں کو ان کے حقوق ملیں اور اپنے گھر بنانے کے لیے سرمایہ بھی۔
جواب دیں