"شادی کو ایک ہفتہ ہی گزرا ہوگا کہ میں نے اپنے شوہر کا پارا آسمان کو پہنچتے دیکھا۔ وہ میری زندگی کے ایک، ایک پہلو پر قابض ہو گیا۔ پیسے میرے تھے، لیکن میں اپنے پاس نہ رکھ سکتی تھی، ڈرائیونگ لائسنس نہیں، اسکول جانے کی اجازت نہیں۔ میں اس جہنم میں 15 سال تک پھنسی رہی۔” یہ 45 سال کی فریڈی ریس کا کہنا تھا کہ جو اب اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ نیو یارک میں رہتی ہیں۔ وہ ایک قدامت پسند یہودی گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ جب ان کی عمر صرف 19 سال تھی تو ان کی شادی ایک 22 سالہ شخص سے کر دی گئی تھی، جس کو وہ جانتی تک نہیں تھیں۔ یوں وہ نیو جرسی کے ایک انتہائی قدامت پسند یہودی علاقے میں منتقل ہو گئیں۔
"الجزیرہ” کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق ریس بتاتی ہیں کہ ان کی برادری میں شادی کے حوالے سے لڑکیوں سے رائے نہیں مانگی جاتی تھی، چاہے ان کی عمر 18 سال سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ ابھی لڑکیاں ہائی اسکول ہی میں ہوتی تھیں کہ ان کی شادی کا بندوبست کر دیا جاتا۔ اس سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ "شادی نہ کرنا ہماری برادری میں ایک شرمناک فعل سمجھا جاتا تھا۔ غیر شادی شدہ عورت طنز طعنوں کی زد میں رہتی تھی۔ پھر اسے ‘ناں’ کہنے کا حق بھی تو نہیں تھا۔ میں خود بھی دیکھ چکی تھی کہ غیر شادی شدہ عورتوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ اس لیے مجھے خوف تھا کہ اگر میں نے شادی نہیں کی تو میرے ساتھ بھی یہی ہوگا۔”
"پھر شوہر کے تشدد کے بعد پہلی بار مجھے اندازہ ہوا کہ کم عمر کی لڑکیاں کس طرح پھنس جاتی ہیں۔ ہماری برادری میں خواتین کو طلاق کا حق حاصل نہیں۔ صرف مرد ہی طلاق دے سکتا ہے۔ گو کہ ریاستی قوانین اس کی تائید نہیں کرتے لیکن خواتین کو اپنی برادری کے ہاتھوں انتقامی کارروائی کا خوف ہوتا ہے، اس لیے وہ کورٹ کچہریوں کے چکروں سے گھبراتی ہیں۔”
پھر ریس نے شوہر سے پیسے چھپا کر جمع کرنا شروع کر دیے اور ایک یونیورسٹی میں داخلہ بھی لیا۔ جب اسے پتہ چلا تو وہ غصے میں آپے سے باہر ہو گیا۔ ریس نے دونوں بیٹیوں سمیت خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ دسمبر 2006ء میں ایسے ہی ایک جھگڑے کے بعد انہوں نے گھر کے تالے تبدیل کر دیے۔ جب شوہر نے گھر میں گھسنے کی کوشش کی تو ریس نے کہا کہ "میں نے تمہارے بغیر زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھ لیا ہے، اور یہ زندگی بہت اچھی ہے۔ اب تم اس گھر میں قدم نہیں رکھ سکتے۔”
بالآخر اس نے عدالت جانے کا فیصلہ کیا، اسے ویسے ہی تعاقب، دھمکیوں اور ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا جو عموماً خلع لینے والے عورتوں کو کرنا پڑتا ہے۔ اپنے خاندان تک نے ہاتھ کھینچ لیے۔ "ان کے لیے تو گویا میں مر چکی تھی۔”
بہرحال، ریس نے یونیورسٹی سے صحافت میں ڈگری حاصل کی اور رپورٹر بن گئیں۔ پھر 90 کلومیٹرز دور ایک جگہ منتقل ہو گئیں۔ 2010ء میں جاکر طلاق کے معاملات طے ہوئے لیکن شوہر کی طرف سے ہراساں کرنے کا عمل سالہا سال تک جاری رہا۔
اب ریس "Unchained at Last” نامی ایک ادارے کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں، ایک ایسا ادارہ جو جبری اور کم عمر کی شادیوں کے خاتمے کے لیے کام کرتا ہے۔
ایک امریکی مسئلہ
امریکا میں کم عمری کی شادی کا مسئلہ کافی عرصے سے موجود ہے۔ شیری جانسن کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا، جو اب 61 سال کی ہیں، لیکن شادی کے وقت ان کی عمر صرف 11 سال تھی۔ ان کا تعلق فلوریڈا کی ایک قدامت پسند Pentecostal چرچ برادری سے تھا، جہاں ان ان کی شادی 20 سال کے ایک ایسے بندے سے کر دی گئی، جس نے جانسن کا تب ریپ کیا تھا، جب وہ 10 سال کی تھیں۔ جانسن بتاتی ہیں کہ والدہ سمیت پوری برادری اس معاملے کو چھپانا چاہتی تھی، اس لیے مجھے اپنے ریپسٹ کے ساتھ ہی بیاہ دیا گیا۔
گو کہ زیادہ تر امریکی ریاستوں میں قانوناً شادی کی عمر 18 سال ہے لیکن قانون میں کچھ ایسے سقم موجود ہیں کہ جن کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے جیسا کہ اس عمر سے پہلے بھی والدین کی مرضی سے بچوں کی شادی ہو سکتی ہے، یا عدالت کی منظوری سے یا پھر حمل ٹھہرنے کی صورت میں۔ ان کی وجہ سے نفسیاتی مسائل سے دوچار گھرانوں کے بچے بڑے خطروں میں پھنس جاتے ہیں۔
جانسن کہتی ہیں کہ میرے ساتھ جو کچھ ہوا، اس میں سب کا کردار انتہائی مایوس کُن تھا۔ میرے اسکول کا، میرے ڈاکٹرز کا، ہسپتال کے اس عملے کا کہ جس نے ایک 10 سالہ حاملہ بچی کو دیکھا اور پھر بھی کچھ نہ کیا۔
شادی کی رجسٹریشن کے لیے ماں ایک عدالت لے گئی تو اس نے اجازت نہیں دی۔ وہ دوسری عدالت گئیں تو اس نے 11 سالہ بچی کی شادی کی منظوری دے دی۔ "یعنی اب میرا قانونی طور پر ریپ ہو سکتا تھا۔” یوں جانسن کو کئی سال تک جنسی و نفسیاتی استحصال کا نشانہ بننا پڑا۔
شادی کے بعد تقریباً ہر سال ہی انہیں حمل ٹھہرا، یہاں تک کہ چھ بچے ہو گئے۔ 16 سال کی عمر میں وہ وکیل کے پاس گئیں لیکن وہ ابھی کم عمر تھیں۔ یعنی قانوناً شادی کرنے کی عمر تو قرار پائی، لیکن طلاق لینے کے لیے ابھی عمر نہیں ہے۔ اگلے سال ایک ادارے نے ان کے مقدمے کی فیس ادا کر کے ان کو طلاق دلوائی۔ یوں جانسن کئی سال مصیبتیں جھیلنے کے بعد آزاد ہو گئیں۔
اب وہ کم عمری کی شادی کے خلاف ایک توانا آواز ہیں۔ ان جیسی خواتین کی جدوجہد کی بدولت 2018ء میں فلوریڈا نے قانون میں تبدیلی کی جس کے تحت اب 17 سال سے کم عمر کی لڑکی یا لڑکے کی شادی نہیں ہو سکتی۔ اگر لڑکی کی عمر 17 سال ہے تو وہ والدین کی رضامندی اور عدالت کی منظوری سے شادی کر سکتی ہے، لیکن اس پر بھی ایک شرط ہے کہ لڑکا لڑکی سے دو سال سے زیادہ بڑا نہ ہو۔
دنیا بھر میں لڑکیاں خطرے میں
یونیسیف کے مطابق کم عمری کی شادی ایک عالمی مسئلہ ہیں، جس کی جڑیں صنفی عدم مساوات میں ہیں۔ ہر سال تقریباً 12 ملین لڑکیوں کو 18 سال کی عمر سے پہنچنے سے پہلے ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے اور اس وقت تقریباً 650 ملین خواتین ایسی ہیں کہ جن کی شادی ان کی 18 ویں سالگرہ سے پہلے ہوئی تھی۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق عدم مساوات کی وجہ سے لڑکیوں کو یا تو بوجھ سمجھا جاتا ہے، یا پھر بھیڑ بکریاں کہ جس کے ساتھ چاہے باندھ دیا۔ ایسے معاشروں میں کہ جہاں لڑکے والے دلہن کے لیے لڑکی والوں کو پیسے بھی دیتے ہیں، وہاں ۃو معاشی مشکلات میں والدین بیٹی کو فوراً بیاہ دیتے ہیں کہ کچھ مالی حالات بہتر ہو جائیں گے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بچپن کی شادی کا نشانہ بننے والی لڑکیاں مالی طور پر خوشحال نہیں ہوتیں، کیونکہ ان کا تعلیم کا سلسلہ رک جاتا ہے، وہ گھریلو تشدد کی زد پر بھی زیادہ ہوتی ہیں، ان کا جنسی استحصال بھی زیادہ ہوتا ہے، پھر صحت کے مسائل اور حمل کے خطرناک مراحل سے بارہا گزرنا بھی پڑتا ہے۔ 15 سال سے کم عمر میں وضع حمل میں موت کا امکان 5 گُنا زیادہ ہوتا ہے۔
کم عمری کی شادیاں کئی ملکوں، مذاہب کے ماننے والوں اور ثقافتوں میں ہوتی ہیں لیکن ان میں غریب، دیہی، مذہبی اور قدامت پسند برادریاں زیادہ ہیں۔ یونیسیف کے مطابق کم عمری کی شادیاں جنوبی ایشیا، وسطی افریقہ، لاطینی امریکا اور مشرق وسطیٰ میں زیادہ ہیں، لیکن دیگر ممالک میں بھی ہوتی ہیں جیسا کہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، ناروے اور آسٹریلیا میں۔
پبلک براڈکاسٹ سسٹم (PBS) کا تحقیقی صحافت کا پروگرام ‘فرنٹ لائن’ بتاتا ہے کہ امریکا میں 2000ء سے 2015ء کے دوران 18 سال سے کم عمر کے 2,07,000 بچوں کی شادی ہوئی۔ ان میں 87 فیصد لڑکیوں کی بڑی عمر کے مردوں سے شادی ہوئی۔ یہ تعداد کہیں زیادہ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کچھ ریاستوں کا ڈیٹا میسر نہیں تھا۔
اس وقت پورے امریکا میں صرف چار ریاستیں ایسی ہیں کہ جہاں 18 سال سے کم عمر میں کسی صورت شادی نہیں ہو سکتی۔ کچھ ریاستیں ایسی ہیں کہ جہاں والدین اور عدالت کی منظوری سے شادی کی کم از کم عمر کی کوئی حد نہیں، جبکہ دیگر ریاستوں میں کم از کم عمر طے کی گئی ہے۔ شمالی کیرولائنا اور الاسکا میں تو 14 سال کی عمر میں بھی عدالت کی منظوری سے شادی کی جا سکتی ہے۔ ایسے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججوں کے پاس نہ ہی اتنا اختیار ہوتا ہے کہ بچیوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور نہ ہی تربیت کہ خاندان اور بچوں کے مسائل کو سمجھ سکیں۔ جج تو چھوڑیں کچھ ریاستوں میں تو ایک کاؤنٹی کلرک بچوں کی شادی کا لائسنس جاری کرنے کی اتھارٹی رکھتا ہے۔ جیسا کہ ڈونا پولارڈ کے ساتھ ہوا۔
36 سالہ پولارڈ جب 14 سال کی تھیں تو ایک 29 سالہ آدمی ان کے پیچھے پڑ گیا۔ وہ ریاست کینٹکی میں ایک ظالم گھرانے میں پلی بڑھیں، جب 13 سال کی تھیں تو والد چل بسے۔ گھر کے حالات بگڑتے چلے گئے اور والدہ ان سے جان چھڑانا چاہتی تھیں۔ جب وہ مزاحمت کرنے لگیں تو والدہ ایک ماہرِ نفسیات کے پاس لے گئیں۔ انہیں 14 سال کی عمر میں انڈیانا کے ایک بحالی مرکز میں داخل کر دیا گیا۔ جہاں ان کی مدد تو کیا کی جاتی، ایک 29 سالہ شخص ان کے پیچھے پڑ گیا۔ "وہ چھیڑتا، جملے کستا اور تنہائی میں ملنے کی باتیں کرتا۔” اس نے ایک پریشان حال لڑکی کا باآسانی شکار کیا۔
جب پولارڈ کی عمر 16 سال تھی، اور وہ 31 سال کا تھا تو اس نے شادی کا فیصلہ کیا اور ماں سے بات کر لی۔ ماں رضامند ہو گئی اور پھر دونوں کی شادی ہو گئی۔ یہ ریاست ٹینیسی تھی کہ جہاں وہ عدالت میں گئے، کاؤنٹی کلرک خاتون نے کوئی سوال نہ پوچھا، بلکہ سر اٹھا کر دیکھا تک نہیں اور میرج لائسنس جاری کر دیا۔
امریکی ریاست ٹینیسی میں کینٹکی اور انڈیانا کی طرح اُس وقت کم عمر کی لڑکیوں کو والدین کی رضامندی سے شادی کی اجازت تھی۔ 2018ء میں ٹینیسی اور کینٹکی نے شادی کی کم از کم عمر 17 سال کی۔ کینٹکی میں 17 سال کی عمر کی لڑکی والدین کی رضامندی اور عدالت کی منظوری سے شادی کر سکتی ہے جبکہ ٹینیسی میں 17 سال کی عمر میں والدین کی مرضی ضروری ہے۔ البتہ دونوں ریاستوں میں شرط یہ ہے کہ لڑکا لڑکی کی عمر میں چار سال سے زیادہ کا فرق نہ ہو۔ انڈیانا نے 2020ء میں قانون میں تبدیلی کی، جہاں اب بھی 16 سالہ کی لڑکی کی عدالت کی منظوری سے شادی کی اجازت ہے۔
بہرحال، شادی کے بعد پولارڈ پھنس گئیں۔ انہوں نے اسکول جانے کی کوشش کی تو انہوں نے داخلے سے انکار کر دیا کہ وہ شادی شدہ لڑکیوں کو داخلے نہیں دیتے۔ گو کہ امریکا میں سرکاری اسکول شادی شدہ یا حاملہ بچیوں کو داخلے سے روک نہیں سکتے، لیکن پولارڈ کم عمری کی وجہ سے کسی سے مدد طلب نہیں کر پائیں۔
کئی بار ان کی مار پیٹ کی آوازیں سن کر پڑوسی پولیس بلا لیتے لیکن وہ بھی ان کے شوہر کی سن کر واپس چلی جاتی اور کوئی قدم نہ اٹھاتی۔
ایک مرتبہ انہوں نے شوہر سے بھاگ کر ایک الگ اپارٹمنٹ کرائے پر لینے کی کوشش کی تو کسی نے ایک نوعمر لڑکی کو کرائے پر گھر نہیں دیا۔ ایک مرتبہ پھر وہ گھریلو تشدد کی شکار خواتین کے لیے بنائے گئے ایک شیلٹر ہوم پہنچیں، لیکن انہوں نے بھی قبول نہیں کیا کیونکہ ان کی عمر 18 سال نہیں تھی، جو وہاں داخلے کے لیے کم از کم عمر تھی۔ "میری زندگی تباہ ہو چکی تھی، میں مکمل طور پر پھنس چکی تھی۔”
پھر انہوں نے پیسے بچانے کا منصوبہ بنایا اور کچھ عرصے بعد کینٹکی آ گئیں جہاں 20 سال کی عمر میں انہوں نے طلاق لے لی۔ سابق شوہر کی طرف سے ہراساں کرنے کا عمل جاری رہا لیکن پولارڈ نے اپنی ٹوٹی پھوٹی شخصیت کو جوڑنے کا کام شروع کیا۔ گریجویٹ ڈگری لی اور 2017ء میں "Survivors Corner” کے نام سے ایک ادارہ بنایا کہ جو ظلم کی شکار لڑکیوں کی مدد کرتا ہے۔
پولارڈ کے کیس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ کم عمر کی شادی کو تو قانونی روپ دے دیا گیا، لیکن شیلٹر ہوم اور اسکول میں داخلے کے معاملات نے مسائل ظاہر کر دیے۔ گو کہ یہ ایک قانونی طور پر تسلیم شدہ ریپ تھا۔ لڑکیوں کی اتنی عمر ہی نہیں ہوتی کہ انہیں رضامندی کا کچھ پتہ بھی ہو، لیکن جو ریپ کرے، لڑکی کو اسی کے حوالے کر دیا جاتا ہے کہ اب وہ قانوناً اس کا ریپ کر سکتا ہے۔
"وباء کے دوران ایک اور وباء”
یونیسیف کے مطابق بحران کی صورت میں یا عدم استحکام کے دور میں بھی کم عمری کی شادیاں بڑھ جاتی ہیں۔ کووِڈ-19 نے بھی ان حالات کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں مزید 13 ملین لڑکیوں بچپن ہی میں بیاہ دی گئی ہیں اور غربت اور بے روزگاری میں اضافے کی وجہ سے یہ رحجان بڑھتا جا رہا ہے۔ وباء نے کم عمری کی شادی کے خاتمے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو سخت دھچکا پہنچایا ہے۔
پھر کووِڈ-19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے گھروں میں رہنے اور سماجی فاصلے کے جو احکامات جاری کیے گئے ہیں، انہوں نے ایک "نئی وباء” پیدا کر دی ہے، اپنے ساتھی کے ظلم و تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین اور بچے اب اپنے ظالم کے ساتھ ایک ہی جگہ پر بند رہنے پر مجبور ہیں۔
وباء کے دوران اسکولوں کی بندش نے بھی کم عمری کی شادی کے مسائل بڑھا دیے ہیں۔ "Girls Not Brides” نامی ایک بین الاقوامی ادارے کی سربراہ ڈاکٹر فیتھ ایموانگی کہتی ہیں کہ "تعلیم کم عمری کی شادی کے خلاف ایک اہم ہتھیار ہے۔ لڑکی جب تک تعلیم حاصل کرتی ہے، اس کی شادی کا امکان کم ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس کی عمر 18 سال ہو جائے۔ لیکن وباء کو روکنے کے لیے اسکولوں کی بندش کی وجہ سے اب لڑکیوں پر ایک مرتبہ پھر کم عمری کی شادی کی تلوار لٹک رہی ہے۔”
چند ملکوں میں کرونا وائرس کے کم عمری کی شادیوں پر پڑنے والے اثرات کو دیکھنا ابھی باقی ہے۔ شروع میں تو شادیوں میں کمی آئی کیونکہ عدالتیں وغیرہ بند تھیں، لیکن جیسے جیسے معاشی دباؤ اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، نوعمر لڑکیاں خطرے کی زد میں آ رہی ہیں۔
جواب دیں