دنیا میں آنے والے ہر بحران کے صنفی پہلو بھی ہوتے ہیں، آسان الفاظ میں کہیں تو یہ کہ کوئی بھی بحران مردوں اور عورتوں، لڑکوں اور لڑکیوں کو مختلف انداز میں متاثر کرتا ہے۔ کووِڈ-19 کی وباء بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ تقریباً ایک سال گزر چکا ہے اور اس عرصے میں ہم نے کیا سیکھا؟ آخر پالیسی سازوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو ایسا کیا کرنا چاہیے کہ جن کے نتیجے میں وباء سے دہائیوں کی پیشرفت کا خاتمہ نہ ہو جائے اور یوں خواتین اور لڑکیوں کے لیے ایک بہتر مستقبل مرتب ہو؟
خواتین کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے ‘یو این ویمن’ نے حال ہی میں پالیسی سازی کے حوالے سے دستاویزات کا ایک سلسلہ جاری کیا ہے، جو ایسے واضح اقدامات بیان کرتا ہے جن کی مدد سے صنفی عدم مساوات میں اضافے کے بجائے ان کے خاتمے کی راہ ہموار ہوگی۔ اس میں کیئر اکانمی، روزگار، تحفظ اور فیصلہ سازی میں صنفی مساوات بڑھانے کا ذکر شامل ہے۔
اس تحقیق کے چار بنیادی اسباق یہ ہیں:
1۔ خواتین معیشت دان تو سالہا سال سے کہہ رہی ہیں کہ کیئر اکانمی عالمی معیشت کی بنیاد ہے۔ کیئر اکانمی کا مطلب ہے ایسا کام کہ جس میں ایک یا زیادہ افراد کی جسمانی، ذہنی یا نشو و نما کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ کیئر ورک اور گھریلو کام کا بڑا حصہ، چاہے اس کی ادائیگی نہ ہوتی ہو یا بہت معمولی تنخواہ دی جاتی ہو – زیادہ تر خواتین کے ذمہ ہوتا ہے۔ کووِڈ-19 کے خلاف ردعمل میں یہ کام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں ڈے کیئر سینٹرز اور اسکولوں کا کام بند ہو جانے کی وجہ سے کیئر ورک کا زیادہ تر کام ایک مرتبہ پھر گھریلو دائرے تک محدود ہو گیا ہے۔ یہ کام زیادہ تر خواتین ہی کے ذمے ہے۔ کمزور ہیلتھ سسٹمز رکھنے والے ملکوں میں گھروں پر بیماریوں کی دیکھ بھال بھی خواتین ہی کر رہی ہیں اور یہ کام وہ اپنی صحت کو خطرے میں ڈال کر انجام دے رہی ہیں۔
اس سلسلے میں خواتین کی مدد کے لیے بہت کم کام کیا گیا ہے لیکن پھر بھی امید کی کچھ کرنیں موجود ہیں جیسا کہ جرمنی، اٹلی اور کوسٹاریکا نے پوری ادائیگی کے ساتھ کام کے دورانیے میں کمی کرنے اور اس کو بانٹنے کے انتظامات متعارف کروائے، ساتھ ہی تنخواہ کے ساتھ خاندان بھر کو چھٹیاں دینے میں آسانی فراہمی کرنے، بیماری کی چھٹیوں کی تنخواہوں کے ساتھ ادائیگی، اپنا کام کرنے والے افراد اور اس دور میں ضروری شعبوں سے وابستہ کارکنان کے لیے چائلڈ کیئر کے اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں۔
2۔ بلاشبہ کووِڈ-19 کی وباء سے عورتوں کے مقابلے میں مرد زیادہ تعداد میں مرے ہیں لیکن روزگار کے معاملات میں کمزور صورت حال ہونے کی وجہ سے وباء کے معاشی اثرات عورتوں پر زیادہ بُری طرح پڑے ہیں۔ مثلاً ترقی پذیر ملکوں میں کہ جہاں خواتین بے ضابطہ شعبوں میں زیادہ ہیں، انہیں سماجی تحفظ حاصل نہیں جیسا کہ بیمار ہونے کی صورت میں چھٹیوں کی سہولت یا ہیلتھ انشورنس وغیرہ۔ پھر کئی خواتین گھریلو کام کرتی ہیں یا ایسے کاموں سے وابستہ ہیں جن کے لیے انہیں عوامی دائرۂ کار میں آنا پڑتا ہے جیسا کہ چیزیں بیچنا وغیرہ۔ لاک ڈاؤن میں یہ کام کرنا مشکل ہو گیا اور اب ان کے سامنے دو ہی راستے ہیں: یا تو وباء کے باوجود کام کریں یا اپنے خاندان کو بھوک سے بلکتا ہوا دیکھیں۔
چند ملکوں نے خواتین پر پڑنے والے ایسے معاشی اثرات سے نمٹنے کے لیے براہ راست اقدامات اٹھائے ہیں۔ مثلاً ایل سیلواڈور میں نجی کمپنیوں کے لیے لازم کیا گیا کہ وہ 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے تمام کام کرنے والوں اور حاملہ خواتین کو 30 دن کی چھٹیاں تنخواہ کے ساتھ دیں۔ اس کے علاوہ برکینا فاسو میں بے ضابطہ شعبوں سے وابستہ کارکنوں کو نقد رقوم دی گئی، بالخصوص پھل اور سبزیاں بیچنے والی خواتین کو۔ بحران کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ایسے ہی مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
3۔ ماضی کے تجربات کی بدولت ہمیں معلوم ہے کہ جب بھی کوئی بحران آتا ہے، خواتین پر تشدد بھی بدترین صورت اختیار کر لیتا ہے۔ وباء میں بھی معاشی تباہی اور لاک ڈاؤن کے نتیجے میں مظلوم خواتین خود پر ظلم کرنے والوں کے ساتھ ہی ایک جگہ پر محدود ہو گئیں۔ ان خواتین کا مددگار سروسز تک رسائی حاصل کرنا بھی دشوار تھا۔ وباء کے دوران ارجنٹینا سے برطانیہ اور تونس تک خواتین کے لیے مددگار ہاٹ لائنز، دارالامان اور آن لائن ذرائع فراہم کرنے والوں کو طلب میں 25 سے 500 فیصد تک اضافہ نظر آیا ہے۔
خواتین پر تشدد کے خلاف خدمات انجام دینے والے اداروں کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ کینیڈا گھریلو تشدد سے بچانے والے دارالامان لاک ڈاؤن میں بھی کھلے رہے اور حکومت نے ایسے اداروں کے لیے 50 ملین کینیڈین ڈالرز مختص کیے۔ آسٹریلیا اور فرانس نے ان اداروں کے لیے سرمایہ مخصوص کیا جو تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کی مدد کرتے ہیں۔ اینٹیگا اینڈ باربوڈا میں ٹیلی کمیونی کیشنز اداروں نے ہیلپ لائنز پر آنے والی تمام کالز کو مفت کر دیا۔
پھر جیسے ہی ‘ورک فرام ہوم’ کا رحجان بڑھا، سائبر تشدد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ٹرولنگ اور stalking کے علاوہ خواتین اور لڑکیوں کو ہراساں کرنے اور دھمکانے کے نت نئے طریقے بھی سامنے آئے جیسا کہ ‘زوم بومبنگ‘۔ ایسے جرائم سے نمٹنے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جبکہ عالم یہ ہے کہ خواتین کو تشدد سے بچانے کے لیے 2014ء سے 2019ء کے دوران کُل عالمی امداد کا صرف 0.002 فیصد سے بھی کم دیا گیا ہے۔
4۔ دنیا میں اس وقت صرف 21 ملک ایسے ہیں جہاں سربراہ مملکت کوئی خاتون ہیں، لیکن انہوں نے وباء کے دوران اپنی کارکردگی سے سب کو حیران کر دیا ہے۔ ڈنمارک، ایتھوپیا، فن لینڈ، جرمنی، آئس لینڈ، نیوزی لینڈ اور سلوواکیا میں خواتین رہنماؤں کا طرزِ عمل اور ردِ عمل ان کے ملکوں میں وباء کو اثرات گھٹانے میں بنیادی اہمیت کا حامل رہا۔ ان کے فوری اور شفاف اقدامات کا نتیجہ لاکھوں جانوں کے بچنے کی صورت میں نکلا۔ وباء سے پہلے دنیا کی کُل آبادی کا تقریباً نصف 47 فیصد حصہ یہ سمجھتا تھا کہ مرد عورتوں کے مقابلے میں بہتر سیاسی رہنما ہوتے ہیں۔ لیکن اس نمایاں کامیابی کے بعد ہو سکتا ہے کہ اس امتیاز کا خاتمہ ہو جائے۔
لیکن اس کامیابی کے باوجود سیاسی فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی نمائندگی اب بھی بہت کم ہے اور کووِڈ-19 پالیسیوں، منصوبوں اور بجٹ پر ہونے والی پیشرفت اور نگرانی میں خواتین کی مخصوص ضروریات خطرے کی زد میں ہیں۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ ایسے وقت میں جب سرکاری وسائل مختص کیے جا رہے ہیں، کتنے رہنما ہیں کہ جنہوں نے صنفی برابری جیسے موضوعات اٹھائے ہیں اور خواتین پر تشدد اور ماؤں کی صحت کے حوالے سے بات کی ہے؟
اس کے علاوہ امن کے قیام میں بھی خواتین کی موجودگی اور تجربہ بہت ضرور ہے، خاص طور پر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے عالمی سیزفائر کے مطالبے کے تناظر میں۔ اگر ہدف پائیدار امن حاصل کرنا ہے تو شواہد ثابت کرتے ہیں کہ امن مذاکرات کی میز پر خواتین کی موجودگی ضروری ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے لیے یہ بحران صنفی مساوات میں ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو سکتا ہے۔
جواب دیں