‏’ملکۂ ترنم’ نور جہاں کی یاد میں

اللہ وسائی سے "بے بی” نور جہاں اور پھر میڈم نور جہاں سے ملکۂ ترنم تک کا سفر، وہ بھی ایسے ملک میں جہاں آج بھی خواتین کے گانے کا تصور تک نہیں کیا جاتا۔ یہ ہے میڈم نور جہاں کی داستان کہ جس کا آغاز تقسیمِ ہند سے بھی پہلے سے ہوتا ہے۔

وہ 21 ستمبر 1926ء کو پنجاب کے شہر قصور میں پیدا ہوئیں اور صرف پانچ سال کی تھیں، جب ان کی والدہ نے بھاپ لیا کہ اللہ وسائی کو گلوکاری میں دلچسپی ہے اور اس میں صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ پھر ان کے لیے ایک استاد مقرر کیا گیا، ایسا استاد جو واقعی نور جہان کے شایانِ شان تھا، استاد بڑے غلام علی خان۔ ان کے ہاتھوں کلاسیکی تربیت پانے کے بعد نو عمری میں ہی لاہور سے گلوکاری کا آغاز کیا کہ جہاں فلم سے پہلے براہِ راست گانا اور رقص پیش کرنے کی روایت پائی جاتی تھی۔

فلمی صنعت میں کام کرنے کے لیے اللہ وسائی نوعمری میں ہی خاندان کے ساتھ کلکتہ منتقل ہو گئیں کہ جہاں انہیں "بے بی” نورجہاں کا نام ملا۔ لیکن وہ بہت چھوٹی تھیں، اتنی کہ کلکتہ کی فلمی صنعت میں شاید ہی کوئی انہیں سنجیدہ لیتا، خاص طور پر اس ماحول میں کہ مختار بیگم اور کجن بائی جیسے بڑے نام موجود تھے۔ بالآخر 1938ء میں وہ لاہور واپس آ گئیں۔

تب میوزک ڈائریکٹر غلام حیدر نے نور جہاں کے لیے چند گانے لکھے، جو مشہور بھی ہوئے۔ 1942ء میں انہیں فلم ‘خاندان’ میں اپنا پہلا فلمی کردار ملا اور اس کی کامیابی کے بعد وہ ڈائریکٹر شوکت حسین رضوی کے ساتھ بمبئی منتقل ہو گئیں، جہاں 1943ء میں دونوں کی شادی ہو گئی۔

پھر 1945ء سے تقسیمِ ہند تک وہ ہندوستان کی بڑی فلمی اداکارہ رہیں، جن کے پاس ‘ماں’، ‘زینت’ اور ‘گاؤں کی گوری’ (1945ء)، ‘انمول گھڑی’ (1946ء) اور ‘جگنو’ (1947ء) جیسی مشہور فلمیں تھیں۔ ان فلموں میں انہوں نے اپنی کلاسیکی گلوکاری کی تربیت کا بھی خوب استعمال کیا۔ گانوں میں جذبات و احساسات اور شاعرانہ تاثرات کی بدولت مقابل گلوکاراؤں کے لیے نور جہاں کا مقابلہ کرنا ناممکن ہو گیا۔

محبوب خان کی ‘انمول گھڑی’ میں سریندر، ثریا اور نور جہاں شامل تھیں۔ یعنی کہ فلم ان دونوں حریف اداکاراؤں+گلوکاراؤں کا مقابلہ تھی، اور نور جہاں سے اس موقع کا زبردست فائدہ اٹھایا۔ فلم نے شاندار کامیابیاں سمیٹیں اور آج بھی نوشاد کی موسیقی کی وجہ سے یاد رکھی جاتی ہے۔ ‘آواز دے کہاں ہے،’ ‘جواں ہے محبت، حسیں ہے زمانہ’ اور ‘میرے بچپن کے ساتھی مجھے بھول نہ جانا’ جیسے گانے آج بھی ذہنوں میں تازہ ہیں۔ یہ 1946ء میں باکس آفس پر سب سے زیادہ کمانے والی فلم بنی۔

‘آواز دے کہاں ہے’ کو بھارت میں نور جہاں کی موجودگی کی لازوال نشانی سمجھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ 1982ء میں جب میڈم نور جہاں بمبئی گئیں، تو ان سے یہ گانا سنانے کی فرمائش کی گئی اور 35 سال بعد انہوں نے وہی گانا ایک مرتبہ پھر سنایا۔ اس موقع پر دلیپ کمار نے ان کے لیے جو تعارفی اور تعریفی کلمات ادا کیے اور جس طرح کا استقبال ملا، وہ دیکھنے کے قابل تھا۔

بہرحال، تقسیمِ ہند کے بعد نور جہاں پاکستان منتقل ہو گئیں، جہاں ان کی پہلی فلم 1951ء کی ‘چن وے’ تھی، جو ان کے شوہر شوکت حسین رضوی کی ڈائریکشن تھی۔ پھر ایک کے بعد دوسرے فلمی آتی رہیں، یہاں تک کہ 1959ء میں ‘کوئل’ آئی، موسیقی کے لحاظ سے ایک لازوال فلم۔

‘کوئل’ کو پاکستان کی تاریخ کی بہترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ باکس آفس پر بھی خوب کامیاب ہوئی تھی۔ لیکن یہ نور جہاں کی آخری بڑی فلم تھی جس میں انہوں نے بحیثیت اداکارہ اپنے جوہر دکھائے۔ اس فلم کے ایک گانے ‘دل کا دیا جلایا’ میں نور جہاں نے سروں پر اپنی گرفت کو دنیا کے سامنے ثابت کیا۔ لیکن اس فلم کے دوسرے گانے بھی کمال کے تھے اور آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں اور انہی میں سے جس گانے سے نور جہاں کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا، وہ ‘مہکی فضائیں’ تھا۔ نہ صرف یہ گانا بلکہ خود نور جہاں کی پرفارمنس دیکھیں تو وہ اپنے عروج پر نظر آتی ہیں۔

نور جہاں ایک کرشماتی شخصیت رکھتی تھیں، ان کی موجودگی ماحول کو یکدم بدل دیتی تھی اور اس پر ایسی ریشمی مخملیں آواز غضب ڈھاتی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لتا منگیشکر نے ایک بار کہا تھا کہ نور جہاں کی آواز نے انہیں نچلے اور اونچے سروں میں گانا سکھایا۔

نور جہاں نے شوکت حسین رضوی سے طلاق لے کر 1959ء میں اداکار اعجاز درانی سے شادی کر لی کہ جس کا اختتام 1970ء میں ایک اور طلاق پر ہوا۔ اعجاز نے نور جہاں کو اداکاری چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور یوں بحیثیت اداکارہ ان کی آخری فلم 1961ء کی ‘مرزا غالب’ تھی۔

یوں اداکاری کا باب تین دہائیوں کے بعد بند ہو گیا، البتہ گلوکارہ کی حیثیت سے ان کا سفر جاری رہا، جس میں انہوں نے آغاز ہی ایک شاہکار سے کیا۔ 1962ء میں فیض احمد فیض کی ‘مجھ سے پہلی سی محبت’ گا کر۔ یہ گانا اس سال فلم ‘قیدی’ میں آیا تھا اور آج بھی اتنا ہی مقبول ہے جتنا 58 سال پہلے تھا۔ شاید اسی لیے فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ "آج سے یہ نظم میری نہیں، بلکہ نور جہاں کی ہو گئی ہے۔”

نور جہاں کے لیے ‘ملکۂ ترنم’ سے بڑا کوئی اعزاز نہیں ہو سکتا جو انہیں حکومتِ پاکستان نے دیا۔ اس کے علاوہ 1965ء میں تمغہ حسنِ کارکردگی اور تمغۂ امتیاز بھی ملا اور 1996ء میں ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران انہوں نے لازوال قومی نغمے گائے۔

اپنی مادری زبان پنجابی میں ان کا مقبول ترین گانا 1973ء کی فلم ‘دکھ سجناں دے’ کا ‘سانوں نہر والے پُل تے بلا کے’ ہے، کہ جو محض ایک گانا نہیں بلکہ ایک ضرب المثل بن چکا ہے۔

عمر کے ساتھ ساتھ نور جہاں کی گلوکاری میں مزید پختگی اور ٹھیراؤ آتا گیا۔ تب انہوں نے اپنے تمام پرانے گانے جدید انداز میں ریکارڈ کروائے۔ نور جہاں کی آواز، گانا پرانا لیکن انداز جدید، یعنی کہ کمال ہی ہو گیا۔ یہ تمام گانے پاکستان ٹیلی وژن پر آئے اور اس سے بہت کچھ سامنے آیا، نور جہاں کی مسحور کن شخصیت، ان کی ادائیں اور ان کی ساڑھیوں کی شاندار کلیکشن بھی۔

ملکۂ ترنم 20 سال پہلے 23 دسمبر 2000ء کو کراچی میں چل بسیں۔ لیکن ان کی دنیا آج بھی ان کے گیت گا رہی ہے، جیسا کہ وہ خود کہہ گئی تھیں۔ صرف پاکستان ہی میں نہیں ان کی آواز بنگلہ دیش اور بھارت سمیت ہر اس ملک میں زندہ رہے گی جہاں اردو بولی جاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے