لبنان نے ایک تاریخی قانون کی منظوری دے دی ہے جس کے مطابق جنسی طور پر ہراساں کرنا جرم قرار پایا ہے اور اب اس عمل کے مرتکب مجرموں کو چار سال تک قید اور کم از کم 50 تنخواہوں کے برابر جرمانہ ادا کرنے کی سزا ہو سکتی ہے۔
صنفی مساوات کے لیے کام کرنے والے ادارے ‘آباد’ سے تعلق رکھنے والی ڈینیئل ہویک کہتی ہے کہ یہ بہت زبردست قانون ہے، جو ایسے جرائم کو روکنے میں مددگار ہوگا۔ "لبنان اس وقت جس معاشی اور معاشرتی بحران سے گزر رہا ہے، اس میں یہ قانون امید کی ایک کرن دیتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم جنگل میں نہیں رہتے، بلکہ یہاں قوانین موجود ہیں کہ جن پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔”
‘آباد’ ان این جی اوز میں سے ایک ہے کہ جنہوں نے اس قانون سازی میں مدد فراہم کی ہے۔
مجرموں کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ یہ قانون ہراسگی کی شکار خواتین اور مجرم کے خلاف گواہی دینے والے شاہدین کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ قانون وزارتِ سماجی امور جانب سے ایک خصوصی فنڈ بھی تشکیل دیتا ہے کہ جو شکار افراد کو سپورٹ اور rehabilitation یعنی بحالی کے عمل میں مدد دینے اور جنسی ہراسگی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کا ہدف رکھتا ہے اور شکار افراد کو واضح طور پر زرِ تلافی کا حق دیتا ہے۔
ڈینیئل ہویک کا کہنا ہے کہ جنسی ہراسگی کے وسیع تر تناظر اور اس کی جامع تعریف کی بدولت یہ اس خطے کے بہترین قوانین میں سے ایک ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ "کوئی بھی ایسا بارہا اختیار کیا گیا بُرا رویہ جو جنسی زمرے میں آتا ہو اور زد میں آنے والے فرد کے لیے ناپسندیدہ ہو، اور اس کے جسم، پرائیویسی یا احساسات کی خلاف ورزی ہو۔” ہراسگی "الفاظ، عمل، اشاروں یا جنسی یا فحش کنایوں میں ہو سکتی ہے،” اور اس میں الیکٹرانک ذرائع سے ہراسگی بھی شامل ہے۔ اگر مجرم کی جانب سے جنسی استحصال کے لیے طاقت یا دباؤ کا استعمال کیا جاتا ہے، تو اس قانون کے تحت اس کا بارہا ہونا ضروری نہیں۔
اقوام متحدہ کے صنفی مساوات اور عورتوں کو بااختیار بنانے والے ادارے یو این ویمن کے لبنان میں واقع دفتر نے ٹوئٹ کیا ہے کہ "یہ لبنان میں جنسی ہراسگی اور استحصال کے مرتکب افراد کو سزا دینے والا پہلا قانون ہے۔”
نئے قانون کے تحت کم از کم سزا ایک ماہ سے ایک سال اور/یا کم از کم ماہانہ تنخواہ کا 3 اور 10 گُنا جرمانہ ہیں، جو اس وقت 6,75,000 لبنانی پاؤنڈز ماہانہ ہے۔ یہ تقریباً 450 ڈالرز بنتے ہیں۔
یہ سزا چھ ماہ سے دو سال قید اور کم از کم تنخواہ کا 10 سے 20 گُنا جرمانہ ہو جائے گی، اگر نشانہ بننے والا فرد مجرم پر "انحصار کرتا ہو،” یا مرتکب فرد اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ماتحت کا استحصال کرے؛ یا ہراساں کرنے کا عمل سرکاری ادارے، جامعات، اسکولوں یا ٹرانسپورٹ سروسز میں ہو۔
سب سے زیادہ سزا دو سے چار سال کی قید اور کم از کم تنخواہ کا 30 سے 50 گُنا جرمانہ ہے جو ان مجرموں کے لیے ہے کہ جو نشانہ بننے والے فرد پر "مادّی یا اخلاقی” اختیار رکھتے ہوں؛ اگر نشانہ بننے والا فرد جسمانی طور پر معذور ہو یا خود کا دفاع کرنے کے قابل نہ ہو؛ اگر ہراساں کرنے میں دو یا زیادہ افراد شامل ہوں؛ اور اگر مرتکب فرد جنسی فوائد سمیٹنے کے لیے سخت مادّی، اخلاقی یا ذہنی دباؤ ڈالے۔
لبنانی پارلیمنٹ نے 2014ء کے گھریلو تشدد کے قانون میں بھی ترمیم کی ہے، جس میں اس کا دائرہ شادی کے حوالے سے جبر و تشدد تک پھیلایا گیا ہے، البتہ یہ محض اس تک محدود نہیں ہے۔
پارلیمنٹ کی ویمن اینڈ چلڈرن کمیٹی کی چیئرپرسن اور رکن پارلیمنٹ عنایہ عز الدین نے بتایا کہ مثلاً اگر طلاق ہوتی ہے اور شوہر اپنی سابقہ بیوی کے خلاف کچھ پرتشدد رویہ رکھے تو یہ بھی گھریلو تشدد کے زمرے میں آئے گا۔
اس کے علاوہ گھریلو تشدد کی بنیاد پر اپنے شوہر سے الگ ہونے والی خاتون کو بچے کی تحویل بھی ملے گی، یہاں تک کہ وہ کم از کم 13 سال کا ہو جائے۔ عز الدین نے کہا کہ "کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ اپنی بیویوں کا استحصال کرنے والے بیشتر مرد انہیں بچوں کے نام پر بلیک میل کرتے ہیں کہ اگر اس نے شوہر کو چھوڑا تو وہ اس سے بچے چھین لے گا۔”
Pingback: لبنان، جنسی ہراسگی کے خلاف نیا قانون نامکمل ہے، ہیومن رائٹس واچ - دی بلائنڈ سائڈ