سعودی عرب کی قومی پرچم بردار ایئرلائنز ‘السعودیہ’ نے خواتین کے بطور فلائٹ اٹینڈنٹ کام کرنے کے لیے پہلی بار اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔
ایئرلائنز نے ایک اشتہار جاری کیا ہے جس کے مطابق 20 سے 30 سال کی عمر کی ہائی اسکول گریجوٹس، جو انگریزی زبان میں مطلوبہ مہارت رکھتی ہوں اور طبّی امتحان پاس کر لیں، وہ ‘السعودیہ’ میں فلائٹ اٹینڈنٹ بن سکتی ہیں۔
السعودیہ آمدنی کے لحاظ سے الامارات اور قطر ایئرویز کے بعد مشرق وسطیٰ کی تیسری سب سے بڑی ایئرلائن ہے۔
اس اہم پیشرفت پر سعودی عرب کی اہم تجزیہ کار اور دانشور کریما بخاری نے کہتی ہیں کہ اب پانچ سالوں میں سعودی خواتین کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اور کئی بڑی رکاوٹیں دُور ہو جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی طور پر دیکھیں تو سعودی معاشرہ خواتین کے کام کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، بالخصوص سیلز ویمن جیسے کام۔ فلائٹ اٹینڈنٹ کو تو گھریلو ملازمین جیسے کام کرنے پڑتے ہیں، چیزیں پیش کرنا، صفائی کرنا اور کسی بھی ایسے حکم کو بجا لانا کہ جو ملازمت کا حصہ ہو۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ اسے سعودی خواتین کی تذلیل سمجھا جائے۔
کریما بخاری کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ سعودی عرب کے لیے ایک اہم موڑ ہے، کیونکہ اب روزگار کے مواقع سب کے لیے دستیاب ہوں گے، مردوں کے لیے بھی اور عورتوں کے لیے بھی۔ ساتھ ہی اس کام کی تنخواہ بھی اچھی ہے، جس سے ان خواتین کے لیے راستے کھلیں گے کہ جو یونیورسٹی گریجویٹس نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں سفر کے نئے مواقع بھی ملیں گے۔
گفتگو جاری رکھتے ہوئے کریما بخاری نے کہا کہ خواتین کے نئے شعبوں میں اور نئی شرائط اور تنخواہوں پر کام کرنے کے حوالے سے دلچسپی بہت بڑھی ہے۔ انہیں خود مختار بنانا اور معاشرے کا کارآمد حصہ بنانا بہت ضروری ہے، بجائے اس کے کہ خواتین بوجھ بنی رہیں۔
البتہ کریما بخاری کا کہنا تھا کہ تبدیلی کے اس عمل کے دوران سعودی عرب کے لیے اپنی شناخت برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہم مغربی دنیا جیسا نہیں بننا چاہتے۔ انہوں نے شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کے دور (2005ء تا 2015ء) میں خواتین کے حقوق کے لیے اٹھنے والی تحریکوں کا حوالہ دیا کہ جس نے موجودہ شاہ سلمان بن عبد العزیز کے دور میں بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ولی عہد محمد بن سلمان نے خواتین کے لیے تمام دروازے کھول دیے ہیں اور وہ سعودی خواتین کو مکمل سپورٹ کر رہے ہیں۔ معاشی و قانونی دونوں لحاظ سے اصلاحات کے ذریعے خواتین میں روزگار کی شرح بڑھانے کے لیے واضح اور عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔”
ولی عہد کے ‘سعودی وژن 2030ء’ کا مرکزی حصہ ملک کا تیل پر انحصار کم کرنے کے ساتھ ساتھ سعودی خواتین کو بھی مختلف صنعتی شعبوں میں متحرک دیکھنے پر مشتمل ہے۔ ماضی میں وہ صرف تعلیم کے شعبے تک محدود تھیں۔
سعودی عرب میں بالخصوص گزشتہ تین سالوں کے دوران خواتین کو یکساں حقوق دینے کے لیے کافی اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی کا خاتمہ، محرم کے بغیر سفر اور فٹ بال میچز جیسے عوامی ایونٹس میں شرکت کی اجازت شامل ہیں۔ اب سعودی خواتین اپنے سرپرست مرد کی اجازت کے بغیر شادی بھی کر سکتی ہیں، طلاق حاصل کر سکتی ہیں، اپنے شوہروں سے خلع لے سکتی ہیں، بیرونِ ملک سفر کر سکتی ہیں اور فیملی ریکارڈ حاصل کر سکتی ہیں۔
جواب دیں