فلم ساز صفیہ عثمانی نے اپنی دستاویزی فلم "A Life Too Short” میں قندیل بلوچ کے ‘غیرت’ کے نام پر قتل اور اس کی بدولت ملک میں قانون میں تبدیلی کا احاطہ کیا ہے۔
فلم، ٹیلی وژن اور ڈجیٹل میڈیا سے وابستہ خواتین کی تنظیم ” New York Women in Film & Television” میں معروف صحافی گلوریا اشٹائنم سے بات کرتے ہوئے صفیہ عثمانی نے بتایا کہ "میں نے یہ فلم بنانے کا فیصلہ اسی وقت کر لیا تھا جب قندیل کے قتل کی خبر آئی تھی۔ اس کی وجہ وہ سوچ تھی جو میرے ذہن میں آئی کہ کچذ منتخب کرنے کی، کچھ چاہنے کی آزادی اتنی طاقتور چیز ہے کہ جو ہم سب کے پاس ہے اور ہم اسے "مالِ مفت” سمجھتے ہیں اور ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں کئی خواتین ایسی ہیں کہ جنہیں یہ حق استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔”
یہ دستاویزی فلم ان واقعات کا احاطہ کرتی ہے کہ جن میں پاکستان کی سوشل میڈیا اسٹار قندیل بلوچ کا قتل ہوا۔
وہ "پاکستان آئیڈل” کے ذریعے گلوکاری میں قسمت آزمائی کرنے اتریں، اور پھر لاکھوں کی فالوورشپ کے ساتھ سوشل میڈیا اسٹار بن گئیں۔ ان کے فیس بک پیج سے خواتین کے حق کی بات ہونے لگی، اور پھر مفتی عبد القوی کا پردہ بھی چاک ہوا کہ جو ان کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
اسی بنیاد پر پاکستان تحریکِ انصاف سے مفتی عبد القوی کا اخراج ہوا اور پھر قندیل کی سوشل میڈیا ٹائم لائن اور فون قتل کی دھمکیوں سے بھر گئے۔ یہاں تک کہ 2016ء میں ان کے بھائی وسیم عظیم نے انہیں سوتے میں قتل کر دیا، "غیرت” کے نام پر۔ ان کا کہنا تھا کہ قندیل نے خاندان کی ناک کٹوائی ہے۔
وسیم کو بعد میں عمر قید کی سزا دی گئی۔ صفیہ عثمانی نے کہا کہ "عموماً ہمارے ہاں غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو سراہا جاتا ہے۔ پاکستان میں اگر کسی نے غیرت کے نام پر قتل کیا ہے تو عموماً خاندان والے اسے معاف کر دیتے ہیں۔ لیکن قندیل بلوچ کی موت کے بعد قانون میں ایک نئی شق کا اضافہ ہوا کہ اب خاندان قاتل کو معاف نہیں کر سکتا۔”
شریک-ڈائریکٹر سعد زبیر کے ساتھ بنائی گئی یہ دستاویزی فلم بتاتی ہے کہ خاندان کا معاف کرنا اب قاتل کو صرف سزائے موت سے ہی بچا سکتا ہے، عمر قید سے نہیں۔
صفیہ نے کہا کہ قندیل کا قتل دراصل مذہبی اور ثقافتی رواجوں پر سوال اٹھانے کے فیصلے کی وجہ سے ہوا۔ انہیں نفرت پر مبنی تبصروں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے کس طرح کا لباس پہن رکھا ہے اور سوشل میڈیا پر وڈیوز میں کیا پیش کر رہی ہیں؟
صفیہ نے کہا کہ "قندیل باضابطہ تعلیم یافتہ نہیں تھی لیکن اس کے پاس ہمت تھی، جس کی وجہ اس نے اپنی شناخت خود بنائی اور بہت آگے گئی۔ اس نے اپنے عورت ہونے کو اپنے اختیار میں لیا۔”
یہ دستاویزی فلم دراصل اس ‘ٹرننگ پوائنٹ’ پر بات کرتی ہے جو غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کے لیے قانون میں تبدیلی کا سبب بنا۔ ساتھ ہی یہ ایک عورت کی کہانی بھی بیان کرتی ہے کہ جو مشکلات کو عبور کرتے ہوئے اپنے آزادی کے حق کو استعمال کرتی ہے۔
صفیہ نے کہا کہ "بلاشبہ یہ غیرت کے نام پر ہونے والے ایک قتل کی داستان ہے، لیکن ساتھ ہی یہ غربت کی بھی کہانی ہے، گھریلو تشدد کی بھی، بچپن کی شادی کی بھی، قدامت پسندی کی بھی، یہ اپنی شناخت کی تلاش کی داستان بھی ہے اور سوشل میڈیا پر شہرت کی بھی۔ انہوں نے بہت کم عمر میں اتنا کچھ دیکھا اور پھر بھی خود فیصلہ کیا، اور جو وہ خود کو سمجھتی تھیں، ہر مرتبہ خود کو ویسا ہی بیان کیا۔”
جواب دیں