عرب بہار کے 10 سال، وہ خواتین جنہوں نے تبدیلی کے لیے اپنی جان تک دے دی

یہ دسمبر 2010ء تھا جب تونس کے ایک چھوٹے سے شہر میں ایک مظاہرہ ہوا اور جلد ہی اس تحریک نے پورے شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دنیا آج اسے ‘عرب بہار’ (Arab Spring) کے نام سے جانتی ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی اہم شخصیت صومالیہ کی ہیباق عثمان نے اپنی ایک تحریر میں ‘عرب بہار’، اس کے نتیجے میں خواتین کے حقوق کے لیے ہونے والی جدوجہد اور اس دوران اپنی جانوں کا نذرانہ تک دینے والی خواتین کو یاد کیا ہے۔

وہ لکھتی ہیں کہ ‘عرب بہار’ کے دوران نوجوانوں کی جو توانائی اور عزم دیکھنے کو ملا، اس نے مجھے صومالیہ کی وہ تحریک یاد دلا دی جو تقریباً 30 سال پہلے ایک آمر کے خلاف شروع کی گئی تھی۔

‏2007-08ء کے عالمی مالیاتی بحران نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رکھا تھا، جب ان ملکوں کے عوام سڑکوں پر نکل آئے کہ جہاں دہائیوں سے ایک آمر اور مطلق العنان حکمران تھے، اور ان کو کبھی منصفانہ طور پر عوام سے منتخب ہونے کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ عرب نوجوانوں سمجھتے تھے کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے اور ان کے پاس سڑکوں پر آنے کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں۔

ہیباق لکھتی ہیں کہ ‘عرب بہار’ کو یاد تو بہت کیا جاتا ہے، لیکن ایک پہلو جو ہم بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ تونس سے مصر اور یمن تک ان مظاہروں کی سب سے طاقتور اور مؤثر آواز خواتین تھیں۔ جیسا کہ یمن کی امل باشا جو انسانی حقوق کی ایک نمایاں آواز ہیں۔ انہوں نے دنیا کی توجہ انقلابِ یمن کے دوران انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں کی جانب دلائی۔

پھر شام کی مونا غانم کہ جنہوں نے سیرین ویمن فورم فار پیس (SWFP) کی صورت میں ایک پوری تحریک کھڑی کر دی اور امن کے لیے اور خواتین کے نمایاں کردار کے لیے ایک طاقتور آواز بنیں۔

اس کے علاوہ امن کی داعی زہراء لنقی، جنہوں نے لیبیا کی خواتین کی پہلی تحریک لیبین ویمنز پلیٹ فارم فار پیس (LWPP) کھڑی کی۔

بلاشبہ اس تحریک میں خواتین پیش پیش تھیں، شاید اس لیے ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا۔

2000ء کی دہائی کے اواخر میں عالمی معاشی زوال کی وجہ سے عرب خواتین کو نہ صرف مردوں کی طرح معاشی مشکلات کا سامنا تھا، بلکہ اس وقت بیشتر عرب ممالک میں وہ قانون کی نظر میں بھی برابر نہیں تھیں۔

لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے سے لے کر خواتین سیاست دانوں کو انتخابات میں کھڑے ہونے کی اجازت نہ دینے تک، ان کے خلاف زندگی کے ہر شعبے میں امتیاز برتا گیا اور تشدد کی ہر قسم روا تھی۔ یہاں تک کہ 2017ء تک تو لبنان، اردن اور تونس میں کسی لڑکی کا ریپ کرنے والا اگر اس کے ساتھ شادی کر لے تو اسے کوئی سزا نہیں دی جاتی تھی۔

بہرحال، 2010ء میں جن مظاہروں کا آغاز ہوا کہ انہوں نے موقع دیا کہ ناانصافی اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے آواز اٹھائی جائے، لیکن یہ سب کچھ منتشر سا تھا۔ اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ضروری تھا کہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں کو مل کر کچھ کرنا پڑے گا۔

تبھی میں اکتوبر 2011ء میں قاہرہ میں انسانی حقوق کی توانا آواز لیبیا کی سلویٰ بوقعیقیص سے ملی۔ ان سے مل کر حیرت زدہ ر گئی، وہ ایک زبردست، دانا، شوخ اور باسلیقہ خاتون تھیں۔ اپنے ملک میں جمہوریت، انصاف اور برابری کا وژن رکھتی تھیں اس کے باوجود کہ ملک پر کرنل قذافی کی گرفت تھی لیکن اس جدوجہد میں وہ لیبیا کی خواتین کی ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ آواز بن گئ۔

بعد ازاں سلویٰ نے لیبیا کی گورننگ کونسل میں خواتین کی نمائندگی کم ہونے پر بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا۔ ایک پُر امن اور جمہوری لیبیا کا خواب ٹوٹ سا گیا جب ملک خانہ جنگی کی دلدل میں دھنس گیا لیکن سلویٰ کا یقین برقرار رہا۔ 25 جون 2014ء کو لیبیا میں آخری عام انتخابات کے دن تک وہ اپنے حامیوں کو انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے تحریک دیتی رہیں۔ لیکن ووٹ دینے کے لیے وطن واپسی کے بعد ایک دن چار مسلح افراد ان کے گھر میں گھسے اور انہیں سر میں گولی مار کر قتل کر دیا۔ سلویٰ کے شوہر عصام کو بھی اغواء کر لیا گیا، جن کا آج تک پتہ نہیں چلا۔

ہیباق عثمان لکھتی ہیں کہ ان کے قتل سے زیادہ مجھے آج تک کسی چیز نے دھچکا نہیں پہنچایا۔ مجھے لگا کہ انہوں نے ایک خاتون کو نہیں بلکہ عرب دنیا کی کئی خواتین کی امیدوں اور خوابوں کا قتل کر دیا ہے، میرے خوابوں اور امیدوں کا بھی۔

سلویٰ نے اپنی سالہا سال کی جدوجہد میں ثابت کیا کہ ایسی خواتین موجود ہیں کہ جو مشکل ترین حالات میں بھی برابری اور انصاف پر مبنی معاشروں کے قیام کا عزم، بہادری اور مہارت رکھتی ہیں اور ان کے قاتلوں نے بھی ثابت کیا کہ ایسی قوتیں موجود رہیں گی جو ان کو کچلنے کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے سے دریغ نہیں کریں گی۔

عرب بہار کے دوران خواتین کی ایسی ہزاروں کہانیاں سامنے آئیں اور ہم ان مواقع کو دونوں ہاتھوں سے گرفت میں لینے کے لیے تیار تھے۔ تو جب میں گزشتہ 10 سال کو دیکھتی ہوں تو مجھے کافی مثبت صلاحیت نظر آتی ہے۔

عرب بہار کے ابتدائی ایام میں غیر یقینی کی کیفیت اور وابستہ امیدوں کی وجہ سے خواتین غیر معمولی توانائی کے ساتھ سامنے آئیں اور انہیں اندازہ ہوا کہ کتنا کام کرنا ہے اور ان کے اتحاد میں کتنی طاقت ہے۔ پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، معاملات خراب ہوتے گئے، انہیں نقصان اور ہولناک تباہی کا احساس ہوا۔ بہت سی خواتین اس دوران زدوکوب کی گئیں، ان کا ریپ کیا گیا، جنسی طور پر ان کا استحصال ہوا۔ جیسا کہ منیٰ الطحاوی کو قاہرہ کی سڑکوں پر جنسی حملے کا نشانہ بنایا گیا اور بری طرح مارا پیٹا گیا۔ یا لجین الہذلول کو، جو عورتوں کے حقوق کی توازآ آواز تھیں، اپنے کام کی وجہ سے سعودی عرب میں قید کا سامنا ہے۔ گزشتہ مہینے ہی ایک لیبیائی کارکن حنان البرعصی کو بن غازی میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔

یہ انقلابات بدعنوانی کے خاتمے اور حکومت میں عوام کی رائے کو اہمیت دینے کے مطالبات پر پورے نہیں اتر سکے۔ کشیدگی میں اضافہ ہوا، مطلق العنان حکمرانوں نے اپنی گرفت مضبوط کی اور جو چھوٹے موٹے فوائد بمشکل حاصل ہوئے، وہ بھی خطرے کی زد میں ہیں۔

پارلیمنٹس میں موجود با اثر لابیز اس پیشرفت کے خاتمے کے منصوبے بنا رہی ہیں، جو خواتین کے تحفظ کا خاتمہ کرنا چاہتی ہیں، جیسا کہ نومبر 2017ء میں عراق میں شادی کی قانونی عمر گھٹا کر صرف 9 سال کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔

لیکن ۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ مثبت پیشرفت بھی ہوئی ہے۔ تونس کی خواتین ووٹرز نے ایک اہم انتخابی اتحاد تشکیل دیا اور 2014ء کے انتخابات میں باجی قائد السبسی کی کامیابی کو یقینی بنایا۔ ان کی قیادت میں تونس نے خواتین اور لڑکیوں کو تشدد سے بچانے کے لیے عرب دنیا کے سب سے ترقی پسندانہ قوانین بنائے۔ گو کہ انہیں بھی مزید قدم آگے نہ بڑھانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا، لیکن پھر بھی اس سے ظاہر ہوا کہ خواتین کی تحریک اور سیاسی شمولیت سے کیا کیا نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

پھر امتیازی قوانین کے خاتمے کے لیے خواتین کے گروپس بھی متحرک ہوئے۔ سلویٰ بوقعیقیص جیسی خواتین جنہوں نے عورتوں کے وقار کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی؛ ایسا مستقبل تشکیل دینے کے مواقع دیے جیسا وہ اپنے لیے چاہتی تھیں۔ میرے لیے تو ‘عرب بہار’ کا ترکہ یہی ہے۔

سلویٰ کا پیغام اتنا طاقتور تھا کہ ان کے دشمن بھی جانتے تھے کہ اس سے نمٹنے کے لیے ان کے پاس سوائے خوف پھیلانے اور تشدد کرنے کے کوئی راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے خاتمے اور تشدد کے خلاف جدوجہد کی قیادت کی اور اب ہمیں ضرورت ہے صرف ایسی خواتین کو تلاش کرنے، انہیں سہارا دینے اور تحفظ فراہم کرنے کی۔

عثمان ہیباق آخر میں لکھتی ہیں کہ مجھے اب بھی امیدیں ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کی نئی نسل کے ساتھ مل کر میں اور میری جیسی مزید خواتین ‘عرب بہار’ سے حاصل کردہ سبق سے سیکھنے کا عزم رکھتی تاکہ ایک یکساں اور انصاف پر مبری مستقبل تشکیل دیا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے