بھارت کے چند علاقوں میں ایک چوتھائی سے زیادہ خواتین کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے۔ یہ انکشاف نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے پہلے مرحلے میں ہوا ہے، جس کے مطابق 9 ریاستوں میں ایسی خواتین کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے کہ جن کا کہنا ہے کہ انہیں بچپن میں جنسی کا تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور آٹھ ریاستوں میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی آبادی کی شرح میں کمی آئی ہے۔
بھارت کا ‘نیشنل فیملی ہیلتھ سروے’ ایک نمائندہ گھریلو سروے ہے جو تقریباً 4 لاکھ گھرانوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں شادی، اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت، ویکسینیشن اور صحت کی حالت سمیت دیگر سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ سروے کووِڈ-19 کی وباء سے پہلے کیا گیا تھا، یعنی اس میں وباء کے دوران خواتین پر تشدد کی جو لہر پیدا ہوئی اور انہیں روزگار سے بھی محروم ہونا پڑا، وہ شامل نہیں ہیں۔ پھر بھی پہلے مرحلے کا جو ڈیٹا سامنے آیا ہے، اگر یہی رحجان اگلے مراحل میں بھی نظر آتا ہے تو ماہرین کے مطابق ہو سکتا ہے کہ اب تک عورتوں اور بچوں کی صحت اور بہبود کے لیے جو پیشرفت کی گئی تھی، وہ ختم ہو جائے۔
کووِڈ-19 کی وباء نے جس مسئلے کو گمبھیر کر دیا ہے وہ ہے صنفی بنیاد پر تشدد کا مسئلہ۔ بھارت میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں اور نیشنل کمیشن آف ویمن کا بھی کہنا ہے کہ وباء کے دوران، بالخصوص لاک ڈاؤن میں، خواتین پر تشدد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لیکن سروے کے مطابق وباء سے پہلے بھی آثار کچھ اچھے نہیں تھے۔
ریاست کرناٹک میں اپنے شوہر کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنے والی شادی شدہ خواتین کی تعداد گزشتہ پانچ سال میں دو گنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے، جو 20.6 فیصد سے بڑھ کر 44.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
البتہ 15 دیگر ریاستوں میں شوہر کے ہاتھوں تشدد میں کمی نظر آئی ہے، جبکہ 22 میں سے 7 ریاستوں میں ایک چوتھائی سے زیادہ خواتین کا کہنا تھا کہ ان کو تشدد کا سامنا رہتا ہے۔ ریاست بہار میں گو کہ یہ اب بھی 40 فیصد تک ہے، لیکن یہ 2015-16ء سے کم ہے، جب 43.7 فیصد خواتین کو اپنے شوہروں کے ہاتھوں تشدد کا سامنا تھا۔ 6 ریاستوں میں 10 فیصد سے کم خواتین کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
بھارت کی 9 ریاستیں ایسی ہیں جہاں ایسی نوعمر خواتین کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے، جن کا کہنا ہے کہ انہیں بچپن میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
صنفی تناسب، یعنی ہر 1,000 مردوں پر عورتوں کی تعداد، آٹھ ریاستوں میں کم ہوا ہے۔ ڈیٹا کے مطابق اس حوالے سے گجرات بدترین ریاست ہے کہ جہاں ہر 1,000 مردوں پر عورتوں کی تعداد 965 ہے۔
اگر پیدائش کے وقت کا تناسب دیکھا جائے تو پہلے مرحلے گزشتہ پانچ سال کی بدترین صورت حال گوا میں رہی۔ یہاں ہر 1,000 لڑکوں پر صرف 838 لڑکیاں پیدا ہوئی ہیں جبکہ 2015-16ء میں یہ تعداد 966 تھی۔
ریاست بہار میں بوقتِ پیدائش صنفی تناسب 2015-16ء میں 934 تھا، جو اب مزید گرتے ہوئے 908 تک پہنچ چکا ہے۔ البتہ مجموعی آبادی میں عورتوں کا تناسب ذرا سا بڑھتا ہوا 1,062 سے 1,090 تک پہنچ گیا ہے۔
کیرالا میں کہ جہاں بوقتِ پیدائش لڑکیوں کی شرح لڑکوں سے زیادہ ہوتی تھی اور 2015-16ء میں ہر 1,000 لڑکوں پر 1,047 لڑکیاں پیدا ہوئی تھیں، لیکن اب وہاں بھی یہ شرح گھٹ گئی ہے اور ہر 1,000 لڑکوں پر 951 لڑکیاں پیدا ہوئی ہیں۔ مہاراشٹر جیسی بڑی ریاست میں گزشتہ پانچ سالوں میں پیدائش کے وقت صنفی تناسب 924 سے 913 تک پہنچ گیا ہے۔
پنجاب اور ہریانہ کہ جہاں 2015-16ء کے سروے کے مطابق ملک کا بدترین صنفی تناسب تھا، اور ہر 1,000 مردوں پر عورتوں کی شرح بالترتیب 860 اور 836 تھی، سروے کے پہلے مرحلے کا حصہ نہیں ہیں۔ لیکن گزشتہ سروے کی بنیاد پر ہی بھارت میں حکومت کو ‘بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ’ جیسی مہم چلانا پڑی تھی۔
جواب دیں