خواتین کی آپ بیتیاں، جو مردوں کو ضرور پڑھنی چاہئیں

ادب کی دنیا میں اب خواتین کا بڑا نام ہے، خاص طور پر 20 ویں صدی میں اردو ادب میں خواتین نے غیر معمولی مقام حاصل کیا۔ لیکن یہ ممکن نہ ہوتا اگر 19 ویں صدی کے اواخر اور 20 ویں صدی کے اوائل میں اردو ادب اور صحافت سے وابستہ خواتین اس کے لیے راہ ہموار نہ کرتیں۔

اگر صرف آپ بیتیوں کی بات کی جائے تو حیران کن طور پر اس صنف میں خواتین کافی پہلے آ گئی تھیں، بلکہ اردو کی پہلی آپ بیتی بھی ایک خاتون ہی نے لکھی تھی۔

20 ویں صدی میں اردو ادب میں خواتین کی آپ بیتیاں شروع میں کم کم ہی نظر آئیں لیکن صدی کے آخری 25 سالوں میں خواتین نے اس میں کافی طبع آزمائی کی اور قارئین کی بہت بڑی تعداد کی توجہ اپنی کتب کی جانب مبذول کروائی۔

رؤف پاریکھ صاحب نے اپنی ایک تحریر میں خواتین کی لکھی گئی ایسی 13 آپ بیتیوں کا ذکر کیا ہے جو مردوں کو لازماً پڑھنی چاہئیں۔

بیتی کہانی – 1885ء

شہر بانو بیگم

یہ آپ بیتی چھپی تو 1995ء میں، لیکن اسے لکھا 1885ء میں گیا تھا۔ مصنفہ شہر بانو بیگم نے خود جنوری 1887ء میں اس پر نظرثانی کی تھی۔ اس طرح یہ اردو کی پہلی آپ بیتی بن جاتی ہے۔ ویسے جعفر تھانیسری کی ‘کالا پانی’ کو اردو کی پہلی آپ بیتی کہا جاتا ہے جو 1886ء میں لکھی گئی تھی۔ اس آپ بیتی کی تدوین معین الدین عقیل نے کی تھی اور 2006ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن بھی لاہور سے شائع ہوا۔

یہ کتاب اس لنک پر پڑھی جا سکتی ہے۔


تزکِ سلطانی – 1903ء

سلطان جہاں بیگم

بھوپال کی رانی سلطان جہاں بیگم برصغیر میں خواتین کی تعلیم کی ابتدائی آوازوں میں سے ایک تھیں۔ ان کی کہ یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ دوسرا حصہ ‘گوہر اقبال’ 1909ء میں جبکہ تیسرا ‘اختر اقبال’ 1914ء میں شائع ہوا۔

یہ کتاب اس لنک پر پڑھی جا سکتی ہے۔


زمانۂ تحصیل – 1906ء

عطیہ فیضی

یہ دراصل عطیہ فیضی کی مکتوب پر مشتمل یادوں کی کتاب ہے۔ 1906ء میں عطیہ فیضی انگلینڈ گئی تھیں اور کئی تفصیلی خط گھر والوں کو لکھے تھے۔ ان کی بہن زہرہ بیگم یہ خطوط کچھ تدوین کے بعد خواتین کے مشہور رسالے ‘تہذیب نسواں’ کو بھیجتیں، جو لاہور سے شائع ہونے والا جریدہ تھا۔ ‘زمانۂ تحصیل’ پہلی بار 1923ء میں کتابی صورت میں آئی تھی۔ محمد یامین عثمان کی تدوین کے ساتھ یہ کتاب 2010ء میں کراچی میں شائع ہوئی۔

یہ کتاب ملک کے معروف کتب خانوں پر دستیاب ہے۔


نیرنگئ بخت – 1942ء

وزیر سلطان بیگم

وزیر سلطان بیگم جالندھری کی اس آپ بیتی کا عنوان ہی ان کی پوری داستان بیان کرتا ہے۔ غموں کی یہ داستان ایک جذباتی قسم کا ناول لگتی ہے۔ اس کتاب کے تعارف میں شمیم جالندھری مدیرہ الزہرا لکھتی ہیں کہ "یہ کتاب انسانی زندگی کے مد و جزر کی مکمل تصویر ہے۔ اس میں ہندوستانی عورت کی بیچارگی کا جس قدر ماتم کیا گیا ہے، وہ بذاتِ خود ایک عریاں حقیقت ہے۔

یہ کتاب اس لنک پر پڑھی جا سکتی ہے۔


ایک ایکٹریس کی آپ بیتی – 1942ء

بملا کماری

بملا کماری، فلمی نام پریما، اپنے وقت کی ایک معروف اداکارہ تھیں۔ اس آپ بیتی میں انہوں نے لکھا ہے کہ کس طرح معصوم لڑکیاں فلمی دنیا کے جال میں پھنس جاتی ہیں۔


آزادی کی چھاؤں میں – 1975ء

انیس قدوائی

انیس قدوائی بھارت کے اُس وقت کے وزیر قانون رفیع احمد قدوائی کی بھابھی تھیں۔ یہ کتاب ذرا ڈائری کے انداز میں لکھی گئی ہے البتہ اس میں 1947ء میں آزادئ ہند کے موقع پر اور اس کے بعد آنے والے سالوں کے حالات بخوبی بیان کیے گئے ہیں۔

یہ کتاب اس لنک پر پڑھی جا سکتی ہے۔


سلسلۂ روز و شب – 1984ء

صالحہ عابد حسین

صالحہ عابد حسین ایک معروف بھارتی مصنفہ تھیں، جن کی یہ آپ بیتی ان کی زندگی خاص طور پر پانی پت اور جامعہ ملیہ دہلی میں گزرے ایام کی عکاسی کرتی ہے۔

یہ کتاب اس لنک پر پڑھی جا سکتی ہے۔


جو رہی سو بے خبری رہی – 1995ء

ادا جعفری

ادا جعفری پاکستان کی مشہور شاعری تھیں کہ جنہوں نے اس آپ بیتی میں اپنی زندگی بہت ہی پُرکشش انداز میں بیان کی ہے۔ بدایوں میں ابتدائی زندگی کا احوال اور بعد ازاں شوہر نور الحسن جعفری کے ساتھ گزری زندگی کی کئی جھلکیاں اس کتاب میں ملتی ہیں۔


ہم سفر – 1995ء

بیگم حمیدہ اختر رائے پوری

بہت سادہ لیکن بہت دل نشیں انداز میں لکھی گئی بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کی یہ آپ بیتی کئی مشہور شخصیات کا ذکر رکھتی ہے، جیسا کہ آپ کے والد ظفر عمر زبیری کا جو اردو میں ابتدائی جاسوسی ناول ‘نیلی چھتری’ کے لکھاری تھے۔


بُری عورت کی کتھا – 1995ء

کشور ناہید

کشور ناہید کی مشہور آپ بیتی پہلی بار 1995ء میں بھارت سے شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد پاکستان سے بھی اس کتاب کی اشاعت ہوئی، لیکن یہ ایڈیشن ذرا مختلف تھا۔ کیوں؟ نام سے سمجھ جائیں۔


ڈگر سے ہٹ کر – 1996ء

سعیدہ بانو احمد

سعیدہ بانو احمد کی یہ آپ بیتی بالکل اپنے نام جیسی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے آل انڈیا ریڈیو میں گزرے ایام میں لکھنؤ اور بھوپال میں قبل از آزادئ ہند کی زندگی بہت سادہ انداز میں بیان کی ہے۔ پاکستان میں اس کتاب کا ایک ایڈیشن 2006ء میں شائع ہوا۔


پردے سے پارلیمنٹ تک – 2002ء

بیگم شائستہ اکرام اللہ

یہ پاکستان کی معروف سیاست دان اور سفارت کار بیگم شائستہ اکرام اللہ کی آپ بیتی ہے جو پہلی بار 1963ء میں ‘From Purdah to Parliament’ کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ بعد میں بیگم شائستہ نے اسے کچھ اضافوں کے ساتھ اردو میں بھی لکھا۔ یہ اردو کتاب 2002ء میں شائع ہوئی۔


زندگی کی یادیں – 2003ء

بیگم جہاں آراء حبیب اللہ

پہلے اردو مضامین کی صورت میں لکھی گئی اور پھر انگریزی میں ‘Remembrance of Days Past’ کے نام سے شائع ہونے والی یہ کتاب بیگم جہاں آراء حبیب اللہ کی زندگی کی داستان ہے۔ اس کا پورا نام ‘زندگی کی یادیں: رام پور کا نوابی دور’ ہے، جس میں ریاست رام پور کی زندگی، اس کی عظمت ، طور طریقوں اور ماضی کی رسومات کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ تاریخی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔

اردو میں لکھی گئی یہ آپ بیتیاں ظاہر کرتی ہیں کہ خواتین دنیا کو کیسے دیکھتی ہیں اور کیسے محسوس کرتی ہیں۔ دنیا کو عورتوں کی نظر سے دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مرد یہ کتابیں ضرور پڑھیں۔ یہ زندگی کا ایک پرلطف اور انوکھا تجربہ ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے