ہر روز دنیا بھر میں 137 خواتین اپنے خاندان کے ہی کسی فرد کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں اور ان میں سے 52 واقعات افریقہ میں پیش آتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا میں ہر 3 میں سے 1 خاتون کو زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لیکن ۔۔۔۔ اب کووِڈ-19 کی وباء کے علاوہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف بھی ایک ‘خاموش وباء’ زور پکڑتی جا رہی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
مغربی اور وسطی افریقہ کے لیے عالمی بینک کے نائب صدر اوسمانے دیاگانا اس خطے میں خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے کچھ تجاویز پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2014ء کی ایبولا وباء کے دوران "ریپ، جنسی حملوں اور عورتوں کے خلاف تشدد” کی "وباء” بھی دیکھی گئی تھی۔ کئی تعلیمی ادارے بند ہوئے، صنفی عدم مساوات میں بہت اضافہ ہوا اور لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے اسکول واپس آنے کا رحجان بھی کم ہوا۔ کئی لڑکیاں یا تو کام پر لگ گئیں یا گھروں میں اضافی ذمہ داریاں سنبھالنے تک محدود ہو گئیں۔ یوں گھریلو تشدد میں بھی اضافہ ہوا۔
اب کووِڈ-19 کی وباء کے بعد ‘سیو دی چلڈرن’ کی ایک حالیہ تحقیق خبردار کر رہی ہے کہ اگلے پانچ سال میں مزید 25 لاکھ لڑکیاں قبل از وقت شادی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس کے علاوہ کووِڈ-19 بحران افریقی عوام کی زندگی اور معیشت کو مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس وباء سے صرف سب-صحارن افریقہ میں 4 کروڑ افراد انتہائی غربت میں دھکیل دیے جائیں گے۔
اس معاشی و سماجی نقصان کا بڑا بوجھ خواتین برداشت کر رہی ہیں بلکہ حقیقت میں خواتین کو زیادہ نقصان کا خطرہ ہے۔ ان علاقوں میں زیادہ تر خواتین غیر رسمی شعبہ جات میں کام کرتی ہیں کہ جن میں انہیں مردوں کی طرح سماجی تحفظ حاصل نہیں۔ پھر صحت کے شعبے میں بھی خواتین کی بڑی تعداد کام کرتی ہے کہ جو کووِڈ-19 کی زد میں سب سے زیادہ ہے۔ پھر اسکول اور ڈے کیئر سینٹرز بند ہونے سے ماؤں کے لیے اپنی ملازمت کی ذمہ داریوں اور بچے کی دیکھ بھال میں توازن قائم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
پھر سماجی فاصلے اور آئسولیشن جیسے اقدامات سے بھی خواتین اپنے خاندان کے دیگر لوگوں اور مقامی برادری سے کٹ سی گئی ہیں۔ اس طرح وہ گھریلو تشدد کی ایک ابھرتی ہوئی لہر سے بھی نبرد آزما ہیں اور کسی تشدد کی صورت میں ان کے پاس کمیونٹی سپورٹ حاصل کرنے مواقع کم ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس "خاموش وباء” کو لازماً روکنا ہے، ہمیں یقینی بنانا ہے کہ کووِڈ-19 کے بعد نئی دنیا میں کوئی عورت یا لڑکی پیچھے نہ رہ جائے۔
انہوں نے ماضی کی تحقیق اور تجربے کی بنیاد پر چند شعبوں کی جانب توجہ دلائی ہے۔ جن میں صنفی بنیاد پر تشدد کو محدود کرنے کے لیے نقد رقوم کی فراہمی کو بہت اہم قرار دیا۔ ‘کیش ٹرانسفر پروگرامز’ کو بڑھانے سے اس بحرانی دور میں غریب خاندانوں پر مالی دباؤ کم ہو سکتا ہے اور یوں خواتین کو اپنے گھروں میں محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ نائیجیریا میں ‘ہاؤس ہولڈ اپ لفٹنگ پروگرام’ 2016ء سے غریب خواتین کو براہ راست نقد ادائیگی کی جا رہی ہے۔ ان سے خواتین خود اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہیں اور اپنے خاندان کو سنبھال سکتی ہیں۔ ٹوگو میں اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کے لیے کرونا وائرس کیش ٹرانسفر پروگرام متعارف کروایا گیا، جس میں خاص توجہ خواتین پر ہے۔
پھر نوعمر لڑکیوں کے لیے محفوظ مقامات، ان کی رہنمائی اور تربیت زندگی میں بڑی تبدیلی لا سکتی ہے۔ جہاں تعلیم اور معاش کے مواقع کم ہوں، وہاں نوعمر لڑکیاں زد پر ہوتی ہیں۔ ایبولا کی وباء کے دوران سیرالیون میں زیادہ متاثرہ لڑکیوں کے حاملہ ہونے کی شرح کم متاثرہ علاقوں سے دو گنا زیادہ تھی۔
وباء کے دوران اسکول سے نکلنے والے بچوں میں زیادہ شرح بھی لڑکیوں کی ہی ہوتی ہے اور ان کی زندگی بھی محدود ہو جاتی ہے۔ کئی لڑکیاں جو اسکول کے ماحول سے باہر ہوں، ان کے قبل از وقت حاملہ ہو جانے یا صنفی بنیادوں پر تشدد کا نشانہ بننے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ چند ملکوں میں ہم زندگی کے اس اہم مرحلے پر نوعمر لڑکیوں کی رہنمائی کے لیے سپورٹ نیٹ ورکس بنانے اور انہیں ہنر سکھانے اور زندگی گزارنے کی تربیت دینے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ لائبیریا میں جو منصوبے شروع کیے گئے، ان سے یہ شواہد ظاہر ہوتے ہیں کہ لڑکیوں کے لیے "محفوظ مقامات” یا "گرلز کلبس” زندگی گزارنے کا ہنر اور معاش کی تربیت مؤثر انداز میں دیتے ہیں اور ان کی مالی خود مختاری اور خود اعتمادی میں اضافہ کرتے ہیں۔ سیرالیون میں ایسے محفوظ مقامات اور ہنرمندی سکھانے والے مراکز نے اسکولوں سے لڑکیوں کو نکالے جانے کے واقعات میں کمی کی ہے اور ساتھ ہی شادی سے قبل ہی حمل کی شرح میں بھی، جو ایبولا بحران کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھی۔
یہی اقدامات کووِڈ-19 کی وباء کے دوران قبل از وقت شادیوں یا لڑکیوں کے حاملہ ہونے کی لہر کو روک سکتے ہیں۔
ساتھ ہی ایسی پالیسیوں کا نفاذ بھی اہم ہے جو خواتین کو برابری کی سطح پر لانے کی کوشش کریں۔ نوعمر لڑکیوں اور خواتین کو بااختیار بنانے کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو ہٹانے میں حکومتوں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ اس خطے کے کئی ممالک اس وقت نوعمر لڑکیوں کی اسکول واپسی اور انہیں صنفی بنیاد پر تشدد سے بچانے میں لگی ہوئی ہیں۔ جیسا کہ بینن، برکینا فاسو، کیمرون، چاڈ، آئیوری کوسٹ، مالی، ماریطانیہ اور نائیجیر میں ساحل ویمنز ایمپاورمنٹ اینڈ ڈیموگرافک ڈیویڈینڈ پروجیکٹ (SWEDD) لڑکیوں کی اسکولوں میں موجودگی برقرار رکھنے، نوعمر خواتین کے لیے معاشی مواقع بڑھانے کے ساتھ ساتھ انہیں صنفی تشدد سے بچانے اور ایسا ہونے کی صورت میں بہتر ردعمل دکھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس میں پالیسی سازوں، سول سوسائٹی، اراکینِ پارلیمنٹ، مذہبی اور مقامی رہنماؤں کا اہم حصہ ہے۔
نائیجر نے بھی بچپن کی شادی اور قبل از وقت حمل کی شرح روکنے کے لیے دلیرانہ اقدامات اٹھائے ہیں۔ نوعمر لڑکیوں کو فیملی پلاننگ سروسز تک رسائی کے لیے والدین یا شوہر کی لازمی اجازت کے خاتمے کے لیے قانونی اصلاحات کی گئیں۔ پہلے نوعمر حاملہ خواتین اسکول میں داخل نہیں ہو سکتی تھیں، اب انہیں اس کی اجازت دے دی گئی ہے۔ دیہات کی سطح پر چائلڈ پروٹیکشن کمیٹیاں ترتیب دی گئی ہیں، جو بچیوں کو کم عمری کی شادی سے بچاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اسکول یا ‘ہسبینڈ کلبس’ بنائے جا رہے ہیں کہ جن میں خاندانی زندگی کے امور پر بات کرنے پر مقامی بزرگ اور مساجد کے امام شوہروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
افریقی کہاوت ہے کہ عورت اس کرۂ ارض پر زندگی کے آغاز کے بڑے رازوں میں سے ایک ہے؛ انہیں اچھی زندگی کا راز معلوم ہے۔
اس لیے بہتر زندگی کا راز اس مستقبل میں پنہا ہے جہاں ہم صنفی مساوات پائیں اور تمام خواتین بااختیار ہوں۔ ایک ایسے وقت میں جب ہم کووِڈ-19 کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، خواتین پر تشدد کی اس "خاموش وباء” کو بھی مت بھولیں۔ ان کی آواز کو تقویت دینا اور ان کی بہبود کو یقینی بنانا ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے معاشرہ اس بحران سے طاقتور ہو کر نکل سکتا ہے۔
Pingback: کووِڈ-19، دنیا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وبا کا بھی سامنا - دی بلائنڈ سائڈ