صدر پاکستان نے اینٹی-ریپ قانون پر دستخط کر دیے

صدرِ پاکستان عارف علوی نے ریپ کے خلاف ایک ایسے قانون پر دستخط کر دیے ہیں، جس کا مقصد اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد کو جلد از جلد اور سخت ترین سزا دینا ہے۔

اس آرڈیننس کے تحت جنسی مجرموں کا ریکارڈ بھی مرتب کیا جائے گا، اس کا شکار ہونے والے افراد کی شناخت چھپائی جائے گی جبکہ چند مجرموں کو کیمیائی طور پر نامرد بھی بنایا جائے گا۔ خصوصی فوری عدالتی ریپ کے مقدمات سنیں گی اور چار مہینے کے اندر اندر اپنا فیصلہ سنائیں گی۔

یہ قانون ملک میں کئی ہائی پروفائل ریپ کیسز کے بعد بنایا گیا ہے۔ خاص طور پر رواں سال 9 ستمبر کو لاہور کے نواح میں پیش آنے والا واقعہ، جس میں ایک خاتون کی گاڑی موٹر وے پر خراب ہو گئی تھی جب دو ڈاکوؤں نے نہ صرف قیمتی سامان لوٹا بلکہ بعد میں بچوں کے سامنے انہیں درندگی کا نشانہ بھی بنایا۔

اس اندوہناک واقعے کے بعد ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں سے لے کر مذہبی جماعتوں تک، ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے زبردست ردعمل دکھایا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تقریباً ایک ماہ کی تگ و دو کے بعد دونوں ملزمان گرفتار کیے جبکہ عوامی دباؤ کا نتیجہ حکومت کی جانب سے خصوصی قانون سازی کی صورت میں نکلا۔

وفاقی کابینہ نے گزشتہ مہینے اس قانون کی منظوری دی تھی جس پر منگل کو صدر عارف علوی نے دستخط کر دیے ہیں۔ لیکن فی الحال اس کی حیثیت محض آرڈیننس کی ہے۔ اب حکومت کو 120 دن، یعنی چار مہینوں، میں اس قانون کو پارلیمنٹ سے منظور کروانا ہوگا، تبھی یہ باضابطہ طور پر قانون کا حصہ بن پائے گا۔ لیکن تب تک یہ آرڈیننس کی صورت میں لاگو رہے گا اور اس کے ذریعے سزائیں بھی دی جا سکیں گی۔

گو کہ چند حلقے اب بھی آرڈیننس پر تنقید کر رہے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ایک تو سزائیں بہت سخت ہیں، دوسرا یہ کہ اس کی منظوری سے پہلے متعلقہ حلقوں سے ضروری مشاورت نہیں کی گئی۔

کیمیائی طور پر نامرد بنانے کی سزا چند ملکوں میں نافذ ہے، جس میں ادویات کے ذریعے مرتکب مرد کے جنسی ہارمونز کو کم کیا جاتا ہے۔ انڈونیشیا نے 2016ء میں ریپ کے مرتکب مجرموں کو کیمیائی طور پر نامرد بنانے کا قانون منظور کیا تھا جبکہ پولینڈ نے 2009ء میں بچوں کے ساتھ ریپ کرنے والوں کے لیے ‘کیمیکل کیسٹریشن’ کو لازمی قرار دیا تھا۔

پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں ریپ کے کیسز میں بہت اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے عوامی سطح پر اس گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد کو سخت سے سخت سزائیں دینے کا مطالبہ بڑھ گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے