کرونا وائرس نے دنیا کو محض صحت ہی کے نہیں، بلکہ کئی بحرانوں سے دوچار کیا ہے جن میں سے ایک ہے عالمی سطح پر بھوک میں اضافہ۔ مستقبلِ قریب میں اس میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے، بلکہ رواں سال کے اختتام تک غذائی عدم تحفظ سے دوچار افراد کی تعداد 270 ملین تک پہنچ جائے گی، جو کووِڈ-19 کی آمد سے پہلے کے مقابلے میں 82 فیصد کا اضافہ ہوگا۔ اگر فوری اور پائیدار اقدامات نہ اٹھائے گئے تو حالات مزید خراب بگڑ سکتے ہیں اور خطرے سے دوچار علاقوں میں قحط کی صورت حال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے عالمی انسانی جائزے (GHO) کے مطابق 2019ء میں دنیا بھر میں غذائیت کی کمی سے دوچار افراد کی تعداد 690 ملین تھی، جو 2014ء کے مقابلے میں تقریباً 60 ملین زیادہ ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی آدھی اموات کا سبب یہی غذائیت کی کمی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں بھی بچوں کی نشوونما کا رک جانا اور جسمانی طاقت میں کمی دنیا کے سنگین مسائل میں سے ایک ہے۔ 2019ء میں 5 سال سے کم عمر کے 21 فیصد بچوں کی نشوونما رکی ہوئی تھی اور 49.5 ملین کو جسمانی طاقت میں کمی کا سامنا تھا۔
اب وباء کے اثرات نے بچوں کو خوراک کی ضرورت مزید بڑھا دی ہے اور 2020ء کے اختتام تک خدشہ ہے کہ مزید 67 لاکھ بچوں کی جسمانی قوت میں کمی آ جائے گی۔
سب سے زیادہ خطرناک صورت حال افریقہ میں ہے کہ جہاں 19 فیصد آبادی غذائیت کی کمی سے دوچار ہے یعنی 250 ملین سے زیادہ افراد۔ یہ دنیا کے تمام خطوں میں غذائیت کی کمی کی سب سے بڑی شرح ہے۔ افریقہ واحد خطہ ہے کہ جہاں 2000ء کے بعد ایسے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے کہ جن کی نشوونما رک گئی ہو۔
سخت بھوک کا سامنا کرنے والوں میں سے 70 فیصد سے زیادہ لڑکیاں اور خواتین ہیں۔ خوراک کی کمیابی کی وجہ سے بھی انہیں اپنی روزمرہ ضروریات کو محدود کرنا پڑ رہا ہے بلکہ اس سے دوسرے کئی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ جیسا کہ ان کا جنسی استحصال اور کم عمر لڑکیوں کو جلدی شادی کرنے پر مجبور کرنا وغیرہ۔
انسانیت کے لیے جو اپیلیں کی جا رہی ہے ان میں غذائی تحفظ کے لیے سرمائے کی طلب میں بھی بدستور اضافہ ہو رہا ہے اور گزشتہ پانچ سالوں میں یہ تقریباً دو گنا ہو گیا ہے۔ 2015ء میں 4.7 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 2020ء میں یہ 8.9 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا ہے۔
اس بھوک کی بنیادی وجہ بڑھتا ہوا تشدد اور کشیدہ صورت حال ہے۔ 2019ء میں 22 ممالک کے 77 ملین افراد کو مسلح تشدد اور عدم تحفظ کی وجہ سے ہی بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ سرفہرست 20 ممالک میں غذائی عدم تحفظ سے دوچار 70 فیصد لوگ ایسے ہی گمبھیر اور تنازعات سے گھرے حالات میں رہتے ہیں۔
ویسے تو کووِڈ-19 سے پہلے مغربی اور وسطی افریقہ میں شدید غذائی عدم تحفظ میں اضافے کا خدشہ تھا، لیکن کووِڈ-19 نے تو اس علاقے میں غذائی تحفظ تحفظ میں 135 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔
شدید موسمیاتی واقعات نے بھی 2019ء میں 25 ممالک میں تقریباً 34 ملین افراد کو غذائی بحران سے دوچار کیا، جن میں سے 77 فیصد افریقہ میں رہتے ہیں۔
پھر 2019ء میں آٹھ ممالک میں معاشی دھچکوں کی وجہ سے غذائی بحران سے دوچار افراد تقریباً دو گنے ہو کر 24 ملین تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ تعداد پچھلے سال چھ ممالک میں 10 ملین تھی۔
جب تک خوراک کی فراہمی کے ناپائیدار نظام سے نہیں نمٹا جائے گا، غذائی عدم تحفظ ایسے ہی جاری رہے گا بلکہ اس میں مزید شدت آ جائے گی۔
جن ممالک میں پہلے ہی غذائی عدم تحفظ موجود ہے، وہاں کے فوڈ سکیورٹی جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ ان میں کووِڈ-19 سے مزید صورت حال گمبھیر ہو سکتی ہے۔ سوڈان میں 96 لاکھ افراد کو ویسے ہی اس حوالے سے بحران کا سامنا ہے، اور 2020ء کی تیسری سہ ماہی میں بدترین غذائی عدم تحفظ کا سے دوچار ان لوگوں کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔ یہ سوڈان میں اب تک ریکارڈ کی گئی سب سے بڑی تعداد ہے۔
2020ء میں عالمی وباء کی آمد اور اس سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات نے عالمی غذائی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے اور 2021ء میں غذائی تحفظ کی ضرورت میں مزید اضافہ ہوگا۔ کیونکہ اس وباء سے پوری عالمی سپلائی چَین متاثر ہوئی اور 2020ء کی دوسری سہ ماہی کے دوران 20 ملکوں میں 10 بنیادی خوراک کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہی کاشت کاری کے سیزن میں تاخیر کا سبب بھی بنا اور کام کرنے والوں کی نقل و حرکت پر پابندی کا نتیجہ بھی کم پیداوار کی صورت میں نکلا ہے۔ اس کے علاوہ موسمیاتی خطرات،کشیدہ صورت حال، طوفانوں، مون سون بارشوں اور ٹڈی دل کے حملوں نے بھی صورت حال کو مزید خراب کیا۔
مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں سے کاشت کاری مزید متاثر ہوگی اور پیداوار سے کمی میں غذائی عدم تحفظ مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
جواب دیں