‏’لو جہاد’، متنازع قانون کے تحت پہلی بار ایک خاتون کی گرفتاری

بھارت نے اپنے متنازع ‘لو جہاد’ قانون کے تحت پہلی بار کسی خاتون کو گرفتار کیا ہے۔

22 سالہ مسکان جہان نے ریاست اترپردیش کے شہر مراد آباد میں ایک سرکاری شیلٹر سے اپنی ساس سے رابطہ کیا اور بتایا کہ بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ان کا حمل ضائع ہو گیا ہے۔

ان کی ساس جہان بی بی کو خدشہ ہے کہ شیلٹر ہوم کے عملے نے ان کی تین مہینے کی حاملہ بہو کو کوئی انجکشن لگا کر ان کا حمل ضائع کیا ہے، کیونکہ وہ ہندومت چھوڑ کر مسلمان ہوئی تھیں اور ان کے مسلمان بیٹے سے شادی کی تھی۔

مسکان کے شوہر 27 سالہ رشید ریاست کی کسی نامعلوم جیل میں قید ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مسکان سے شادی کے لیے انہیں ہندومت چھوڑ کر زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا۔

اترپردیش نے پچھلے مہینے ہی ایک قانون کی منظوری دی ہے کہ جو ہندو خواتین کو اسلام قبول کروانے کے لیے ان سے شادی کرنے سے روکتا ہے۔ اسے ہندو انتہا پسند ‘لو جہاد’ کہتے ہیں۔ لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ یہ قانون مختلف مذہبوں کے ماننے والوں کے درمیان یگانگت کے خاتمے اور ان کے اتحاد کو توڑنے کی کوشش ہے۔

لیکن حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی چار مزید ریاستوں میں اس مہینے یہ قانون منظور کروانے جا رہی ہے، اس کے باوجود کہ وہ تسلیم کرتی ہے کہ قومی سطح پر نام نہاد ‘لو جہاد’ کا کوئی ایک کیس بھی نہیں ڈھونڈ پائی۔

رشید اور مسکان

گو کہ قانون میں کسی مذہب کا نام نہیں لیا گیا لیکن اترپردیش کی پولیس ڈھونڈ ڈھونڈ کر مسلمانوں کو ہدف بنا رہی ہے۔ اب تک اس قانون کے تحت ریاست میں 10 مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ ہندو ایک بھی نہیں۔

مسکان اور رشید کی ملاقات شمالی بھارت کے شہر دہرہ دون میں ہوئی تھی۔ مسکان جو اس وقت پنکی کہلاتی تھی، کا تعلق بھی یو پی سے ہی تھا۔ دونوں قریب ہی واقع سیلونز میں کام کرتے تھے۔

رشید کی والدہ کے مطابق پانچ مہینے پہلے ہمیں اچانک رشید کی کال آئی، اس نے بہت خوش ہوتے ہوئے بتایا کہ اس نے ایک ہندو لڑکی سے شادی کر لی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ جولائی میں آ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ پنکی کے ساتھ بیٹیوں والا سلوک ہو۔

رشید کو مراد آباد میں ایک نئے سیلون میں ملازمت مل گئی اور پنکی، جو اب مسلمان ہو کر مسکان بن چکی تھی، جلد ہی حاملہ ہو گئی۔ رشید کی ماں کی خوشی دیدنی تھی۔ "ہمارے گھر میں کوئی چھوٹا بچہ نہیں کہ جو ہماری گودوں میں کھیلے۔ ہمارا خواب تھا کہ ہم اس بچے کو پڑھا لکھا کر اچھا انسان بنائیں گے۔”

لیکن 2019ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد ‘ہندومت کے تحفظ’ کے لیے نریندر مودی حکومت کا اسلاموفوبیا اپنے عروج پر تھا اور وہ سخت قوانین نافذ کرنا شروع ہو چکی تھی۔ ہندو قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ مسلمان ہندو لڑکیوں کا برین واش کرتے ہیں اور انہیں مسلمان کر کے ان سے شادیاں کرتے ہیں تاکہ وہ خود کو اقلیت سے اکثریت میں تبدیل کر سکیں۔ اسی کو وہ ‘لو جہاد’ کا نام دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ ہندو اکثریتی بھارت میں مسلمانوں کی کُل آبادی 14 فیصد ہے۔

ابھی منگل کو پولیس نے کوشی نگر میں ایک مسلمان لڑکے حیدر علی کو گرفتار کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور "کھال اتار دینے” کی دھمکی تک دی لیکن اگلے روز جب پتہ چلا کہ اس کی بیوی تو پیدائشی مسلمان ہے، تب
اسے چھوڑ دیا گیا۔ لیکن رشید کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ اتوار کو اپنے گھر والوں کے ساتھ مراد آباد میں ایک وکیل کے پاس شادی رجسٹر کروانے گیا تھا۔ کیونکہ رشید اور مسکان کی شادی قریبی ریاست اترکھنڈ میں ہوئی تھی، اس لیے وہ اسے اترپردیش میں رجسٹر کروانا چاہتے تھے۔ لیکن راستے میں ہندو قوم پرست گروہ بجرنگ دل کے بدمعاش آ گئے اور انہوں نے ڈرانے دھمکانے کے بعد پولیس کو طلب کر لیا۔ پولیس نے رشید کو نئے قانون کے تحت گرفتار کر لیا اور مسکان کو اپنے ساتھ شیلٹر ہوم لے گئی۔ اس کے باوجود کہ دونوں بارہا کہتے رہے کہ ہم نے اپنی خوشی سے شادی کی ہے اور ان پر کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔

بجرنگ دل کے ایک مقامی رہنما کہتے ہیں کہ "ہمارے کارکن اس علاقے میں، گاؤں، شہر میں بلکہ ہر جگہ سرگرم ہیں۔ ہمارا کام ہے پولیس کو ‘لو جہاد’ کے کیسز کے بارے میں بتانا اور پھر یہ عدالت کا کام ہے کہ ایسے لوگوں کو سزا دے۔”

رشید کی والدہ نے شیلٹر ہوم میں مسکان سے ملنے کی کوشش بھی کی، لیکن انہیں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ "اب ہم بہت خوفزدہ ہیں۔ نہیں معلوم کہ آگے کیا ہوگا۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے