آسٹریا کی ایک عدالت نے ابتدائی اسکولوں میں اسکارف پر عائد پابندی کا خاتمہ کر دیا ہے اور اسے امتیازی اور غیر آئینی قرار دیا ہے۔
قانون بچوں کو نظریات – یا مذہب – سے متاثرہ ملبوسات پہننے سے روکتا ہے، جن میں سر کو ڈھانپنا بھی شامل ہے۔
گو کہ اعلیٰ عدالت کے جج کرسٹو گریبن وارٹر نے کہا کہ اس قانون کے ساتھ موجود اضافی مواد سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ہدف کا نشانہ اسکارف کو بنایا جا رہا ہے۔
عدالت نے اعلان کیا کہ متنازع قانون، جو خزاں 2019ء سے لاگو تھا، ریاست کی جانب سے برابری اور مذہبی طور پر غیر جانبدار ہونے کے تاثر کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس سے صرف ایک ہی مذہب کے طلبہ متاثر ہو رہے ہیں، یعنی اسلام کے۔
گریبن وارٹر نے کہا کہ اس قانون سے مسلمان لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور وہ معاشرے سے کٹ کر رہ جاتی ہیں۔
یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب دو بچوں اور ان کے والدین نے اس قانون کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کی تھی، جن کا کہنا ہے کہ اس پابندی کا اطلاق محض اس اسکارف پر ہوتا ہے جو پورے سر کو ڈھانپتا ہے، لیکن سر ڈھانپنے کے لیے دیگر چھوٹی چیزوں پر نہیں، جیسا کہ یہودی اور سکھ طلبہ پہنتے ہیں۔
قانون پچھلے سال قدامت پسند اور انتہائی دائیں بازو کے سیاست دانوں کی اکثریت نے منظور کیا تھا کہ جن کا کہنا تھا کہ یہ قانون عورتوں کو صنفی طور پر مجبور کرنے اور انہیں "سیاسی اسلام کے نظریات” سے روکنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
آسٹریا کی اسلامک فیتھ کمیونٹی (IGGOe) نے عدالت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے مذہبی آزادی اور قانون کی حکمرانی کی سمت اہم قدم قرار دیا ہے۔
IGGOe کے صدر امید وُرال نے کہا کہ ہماری معاشرے میں برابری کے مواقع اور لڑکیوں اور خواتین کی خود مختاری پابندیوں کے ذریعے حاصل نہیں ہو سکتی۔
وُرال نے کہا کہ انسانی حقوق پر توجہ اہم تھی اور لڑکیوں کو حجاب پہننے پر مجبور کرنا بھی ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہم حجاب نہ لینے والی خواتین کے ساتھ تحقیر آمیز سلوک کو بھی معاف نہیں کر سکتے اور ان مسلمان خواتین کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانے سے بھی اتفاق نہیں کر سکتے کہ جو حجاب کی اہمیت کو سمجھتی ہیں اور اسے اپنی مذہبی زندگی کا اہم حصہ سمجھتی ہیں۔”
جواب دیں