دنیا کے معروف میگزین ‘ٹائم’ نے آج اپنی ‘سال کی شخصیت’ کا اعلان کر دیا ہے، جو کوئی اور نہیں بلکہ امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس ہیں۔ کملا ہیرس امریکی تاریخ کی پہلی خاتون، اور پہلی سیاہ فام، نائب صدر ہوں گی۔
ٹائم میگزین نے ‘سال کی شخصیت’ کا سلسلہ 1927ء میں شروع کیا تھا اور 1999ء تک اسے ‘سال کے مرد’ کا اعزاز کہا جاتا تھا جبکہ 72 سالوں کے دوران جو چار خواتین اِس مقام تک پہنچیں، انہیں ‘سال کی خاتون’ قرار دیا گیا۔ یہ خواتین تھیں برطانیہ کے شاہ ایڈورڈ ہشتم کی اہلیہ والس سمپسن (1936ء)، برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ دوم (1952ء)، فلپائنی سیاست دان کورازون اکینو (1986ء) اور ‘سال کے مرد و عورت’ کی حیثیت سے منتخب ہونے تائیوان کے رہنما چیانگ کائی شیک اور ان کی اہلیہ سونگ می لنگ۔ اس کے علاوہ 1999ء تک کوئی خاتون ٹائم کے سالانہ سرورق تک نہیں پہنچی، یہاں تک کہ 1999ء میں اس کا نام ہی تبدیل کر کے ‘سال کی شخصیت’ کر دیا گیا۔
لیکن 2020ء میں ‘ٹائم’ نے ایک اور قدم اٹھایا اور پچھلی صدی کے دوران ہر ‘سال کی خاتون’ کا انتخاب کیا۔ ٹائم کے مدیروں اور دیگر وابستہ افراد نے 1920ء سے 2020ء تک ایک صدی کے تمام سالوں کا جائزہ لیا اور ان خواتین کا انتخاب کیا جو اپنے دور سے کہیں آگے کی سوچ رکھتی تھیں۔
‘سال کی شخصیت’ کی طرح یہاں بھی ضروری نہیں کہ شخصیت کے عوامی اور نجی زندگی پر اثرات ہمیشہ مثبت ہی ہوں، لیکن ‘ٹائم’ کے مطابق اس پوری مشق کا مقصد تھا کہ ناکامیوں کے ساتھ ساتھ ان خواتین کی ذہنی صلاحیتوں اور وژن کو بھی جانچا جائے۔
تو جو فہرست تیار ہوئی، وہ ناقابلِ یقین ہے۔ اس میں افغانستان کی ملکہ ثریا طرزی سے لے کر پاکستان کی ملالہ یوسف زئی تک ایسی ایسی خواتین شامل ہیں کہ جن میں سے ہر ایک کے بارے میں ضرور معلوم ہونا چاہیے۔
ویسے ٹائم میگزین کی تاریخ میں کُل 11 سرورق پہلے سے ہی ایسے تھے کہ جن پر ‘سال کی شخصیت’ کی حیثیت سے کوئی نہ کوئی خاتون ضرور موجود تھیں۔ اس لیے منصوبے کے تحت باقی 89 سرورق نئے سرے سے بنائے گئے کہ جن میں سے کچھ نمایاں مصوروں نے تیار کیے۔ یہ منصوبہ کئی مہینوں تک چلتا رہا اور کُل 600 نامزدگیوں میں سے 89 شخصیات کا انتخاب کیا گیا۔
آج ہم ان میں سے محض چند قابلِ ذکر اور نمایاں شخصیات کا ذکر کریں گے، البتہ تمام 100 شخصیات، ان کے لیے بنائے گئے خاص ٹائٹل یعنی سرورق اس لنک پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
1927ء: ملکہ ثریا طرزی
ثریا طرزی افغانستان کے بادشاہ امان اللہ خان کی اہلیہ تھیں۔ وہ 1920ء کی دہائی میں مشرق وسطیٰ کی طاقتور ترین خواتین میں شمار ہوتی تھیں۔ ملکہ ثریا خواتین کے حقوق اور ان کو تعلیم دینے کی زبردست حامی تھیں اور ملک میں لڑکیوں کے لیے پہلا اسکول بھی انہوں نے ہی کھولا تھا۔ ان کی والدہ نے 1927ء میں خواتین کے لیے پہلا جریدہ "ارشادِ نسواں” جاری کیا تھا۔ لیکن یہ سب کچھ دھرا کا دھرا رہ گیا، 1929ء میں خانہ جنگی کو روکنے کے لیے شاہ امان اللہ کو جلاوطن کر دیا گیا۔ ثریا نے باقی زندگی اٹلی کے شہر روم میں گزاری اور وہیں پر 1968ء میں چل بسیں۔
1935ء: امیلیا ایئرہارٹ
11 جنوری 1935ء کو امیلیا نے اپنے ہوائی جہاز میں قدم رکھا، وہ ہوائی کے جزائر سے بحر الکاہل پار کر کے امریکا جانا چاہتی تھیں، وہ بھی اکیلے۔ 2,400 میل کے اس سفر کی کوشش میں کئی لوگ مر چکے تھے، انہیں بھی منع کیا گیا لیکن انہوں نے کسی کی نہ سنی۔ 18 گھنٹے کی پرواز کے بعد وہ اوکلینڈ پر کامیابی سے پہنچ گئیں اور یوں یہ کارنامہ انجام دینے والی پہلی خاتون بن گئیں۔ انہوں نے دنیا کی کئی خواتین کو یقین دلایا کہ ان کا ٹھکانہ محض ان کا گھر نہیں، دفتر، کارخانہ بلکہ ہوائی جہاز بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن دو سال بعد وہ دنیا کے گرد چکر لگانے کی ایک ناقابلِ یقین کوشش کے دوران وہ اپنی جان کی بازی ہار بیٹھیں۔
1947ء: امرت کور
1918ء میں ایک نوجوان شہزادی آکسفرڈ میں تعلیم حاصل کر کے ہندوستان واپس پہنچی اور موہن داس گاندھی کی تعلیمات سے متاثر ہو گئی۔ یہ راج کماری امرت کور تھیں، جو کپورتھلا کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان کی زندگی کا مقصد ہندوستان کو غلامی سے نجات دلانا ہے۔ ہندوستانی عورتوں کے سماجی مسائل جیسا کہ تعلیم اور ووٹ دینے کا حق اور بچپن کی شادی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے پہلے وہ 1930ء میں گاندھی کی سیکریٹری بنیں۔ پھر 1947ء میں آزادئ ہند کے بعد وہ کابینہ کی پہلی خاتون رکن بنیں۔ وہ 10 سال تک بھارت کی وزیرِ صحت رہیں۔ ایک شاہی زندگی چھوڑ کر انہوں نے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کا کام کیا اور یوں آنے والی نسلوں کے لیے قابلِ تقلید بن گئیں۔
1952ء: ملکہ ایلزبتھ دوم
ٹائم نے 1952ء میں ملکہ ایلزبتھ کو ‘سال کی خاتون’ قرار دیا تھا۔ اس 26 سالہ شہزادی کا تاجِ برطانیہ تک پہنچنا تب بھی "ایک بہتر مستقبل کے لیے نیک شگون” قرار دیا گیا تھا۔ آج سات دہائیوں کے بعد 93 سال کی عمر میں بھی وہ اس تخت پر موجود ہیں اور دنیا کی طاقتور ترین خواتین میں شمار ہوتی ہیں۔
1962ء: جیکلین کینیڈی
امریکی تاریخ کی کم عمر ترین خاتونِ اوّل میں سے ایک، جیکلین کینیڈی جیسی نہ کوئی تھی اور نہ کوئی ان کے بعد آئی۔ اپنے شوہر جان ایف کینیڈی کی صدارتی مہم کے دوران مخالفین کی جانب سے ان پر کون سا اعتراض نہیں ہوا؟ ان کے انداز پر اعتراض، بالوں پر، اعلیٰ تعلیم پر اور تربیت پر بھی، لیکن انہوں نے سب اعتراضات کو قبول کیا اور وائٹ ہاؤس پہنچ گئیں۔ پھر ان کا فیشن دنیا کا فیشن بن گیا۔ ان کی سوجھ بوجھ اور انداز و اطوار اتنے مشہور ہوئے کہ جب خود صدر کینیڈی فرانس پہنچے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ "میں وہ ہوں جو جیکلین کو پیرس لایا ہوں۔” لیکن تین سال سے بھی کم عرصے میں سب کچھ بکھر گیا، صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے ساتھ ہی وہ 34 سال کی عمر میں دنیا کی مشہور ترین بیوہ بن گئیں۔
1976ء: اندرا گاندھی
بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی، جنہیں اپنے آمرانہ مزاج کی وجہ سے "ملکہ بھارت” بھی کہا جاتا تھا۔ وہ جمہوریت کے قائل اپنے والد کے مقابلے میں قدرے مختلف تھیں۔ انڈین نیشنل کانگریس کے چند حلقے انہیں کٹھ پتلی سمجھ کر لائے تھے لیکن انہوں نے اپنے اقدامات سے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ باہر بھی اثرات ڈالنا شروع کر دیے۔ یہاں تک کہ 1971ء میں پاکستان کو دو لخت کیا اور اس کے بعد عدم تحفظ کے احساس سے مغلوب ہو کر ملک کے اندر ہنگامی حالت نافذ کر کے اپنی والد کی جمہوریت کو بھی چاک کر ڈالا۔ بعد ازاں، سکھوں کے خلاف ان کی کارروائیاں اس مقام تک پہنچیں کہ ان کے مقدس ترین مقام "گولڈن ٹیمپل” پر بھی چڑھائی کر دی گئی۔ ہزاروں سکھوں کا قتل ہوا، "بغاوت” کچل دی گئی لیکن اس آگ کے شعلے خود اندرا تک بھی پہنچ گئے۔ 31 اکتوبر 1984ء کو اندرا کو ان کے دو سکھ محافظوں نے قتل کر دیا۔ جو روایتیں وہ قائم کر کے گئیں، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود ان کی جماعت میں آج تک جمہوریت قائم نہیں ہو سکی۔ اندرا کے بعد ان کے بیٹے سنجے اور راجیو، راجیو کے بعد ان کی اہلیہ سونیا اور آج اُن کے صاحبزادے راہُل انڈین نیشنل کانگریس کے سربراہ ہیں۔
1987ء: شہزادی ڈیانا
ڈیانا کہنے کو تو ویلز کی شہزادی تھیں، لیکن درحقیقت وہ ‘دِلوں کی شہزادی’ تھیں۔ برطانوی شاہی خاندان کا ایک ایسا حصہ جسے شاید کبھی دل سے قبول نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ لیکن ان کی وجہ شہرت ان کا شاہی خاندان میں جانا تھا ہی نہیں، آپ کو اپنی انسان دوست سرگرمیوں کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں ایڈز کے مریضوں سے ملاقات سے لے کر لاہور میں کینسر کے مریض بچوں کے ساتھ یادگار دن تک۔ لیکن آپ کی فیشن کی حس بھی بہت اعلیٰ تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ ‘فیشن سمبل’ بن گئیں۔ البتہ ڈیانا کی زندگی آسان نہیں تھی۔ 1992ء میں شوہر شہزادہ چارلس سے علیحدگی ہو گئی، یہاں تک کہ معاملہ 1996ء میں طلاق تک جا پہنچا۔ پھر اگلے ہی سال یعنی 1997ء میں پیرس میں ایک کار حادثے میں آپ کی وفات ہو گئی۔ اس وقت ڈیانا کی عمر صرف 36 سال تھی۔
1998ء: جے کے رولنگ
جے کے رولنگ کی ذہن کی تخلیق ایک جادوئی دنیا یورپ میں شہرت پانے کے بعد 1998ء میں امریکا پہنچی۔ اس سے پہلے ‘ہیری پوٹر اینڈ دی چیمبر آف سیکریٹس’ برطانیہ کی تاریخ کی پہلی ایسی ‘بیسٹ سیلر’ بن گئی تھی جو دراصل بچوں کی کتاب تھی۔ اس کتاب کی کامیابی نے نہ صرف ہیری پوٹر سلسلے ہی کی دیگر کئی کتاب کی راہیں کھولیں، بلکہ خود اس پر شاندار فلمیں بھی بنیں۔ پھر تو گویا سلسلہ ہی چل پڑا، پچھلے 20 سالون میں جادو کے موضوع پر کئی کتابیں اور فلمیں آئی ہیں جن کو گننا مشکل ہوگا۔ یہ "انقلاب” جے کے رولنگ کے قلم سے شروع ہوا۔
2003ء: سرینا ولیمز
2003ء میں سرینا ولیمز آسٹریلین اوپن جیتتے ہی تاریخ کی محض پانچویں خاتون بن گئیں کہ جن کے پاس بیک وقت ٹینس کے چاروں بڑے اعزازات یعنی آسٹریلین اوپن، فرنچ اوپن، ومبلڈن اور یو ایس اوپن تھے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے ان کا مقابلہ کسی اور سے نہیں خود اپنی بہن وینس ولیمز سے تھا۔ بہرحال، وہ 21 سال کی عمر میں اس عروج پر پہنچیں لیکن جسے تاریخ کی عظیم ترین کھلاڑیوں میں شامل کرنا چاہیے تھا، اسے بدترین نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا، ان کے مضبوط ڈیل ڈول کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ سرینا ان میں سے نہیں تھیں جو اپنی جسمانی ساخت پر کوئی شرمندگی ظاہر کرتیں، یا اپنی سیاہ رنگت پر، انہون نے اپنے کھیل کے ذریعے ایک، ایک تنقید کا منہ توڑ جواب دیا اور آج کئی نشیب و فراز عبور کرنے کے بعد 2020ء میں بھی ٹینس کے میدانوں میں فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔
2009ء: ملالہ یوسفزئی
جب ‘بی بی سی اردو’ نے ملالہ یوسفزئی کے والد سے کہا تھا کہ طالبان کے سائے تلے زندگی کیسی ہے؟ اس موضوع پر وہ اپنی طالبہ سے کچھ بلاگز لکھوائیں تو یہ کام کسی اور نے نہیں خود ان کی صاحبزادی ملالہ یوسفزئی نے سنبھالا۔ 11 سال کی ملالہ نے "گل مکئی” کے نام سے اپنا پہلا بلاگ 2 جنوری 2009ء کو لکھا۔ اگلے تین سال تک ان بلاگز میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش اور روزمرہ زندگی کے بارے میں لکھا گیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ان کے اسکولوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے ملالہ کی شہرت بڑھتی گئی، زندگی کو لاحق خطرات میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ 9 اکتوبر 2012ء کو تحریکِ طالبان پاکستان کے چند مسلح حملہ آور ان کی اسکول بس میں گھسے اور ان کو گولی مار دی۔ لیکن ملالہ کی زندگی باقی تھی، وہ بچ گئیں، نہ صرف بچیں بلکہ بہت آگے نکل گئیں۔ آج وہ نوبیل انعام یافتہ ہیں، ایک شاندار کتاب کی مصنفہ ہیں، لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک توانا عالمی آواز ہیں اور کروڑوں لڑکیوں کی رول ماڈل بھی ہیں۔
2019ء: گریٹا ٹنبرگ
صرف 15 سال کی عمر کی گریٹا ٹنبرگ نے ایک عالمی تحریک شروع کی، دنیا بھر کے اخبارات کی سرخیوں میں جگہ پائی اور 2019ء میں ٹائم کی ‘سال کی شخصیت’ بھی بنیں۔ یوں یہ اعزاز حاصل کرنے والی کم عمر ترین شخصیت بنیں۔ لیکن پھر بھی کہتی ہیں کہ "میں نے کچھ نہیں پایا۔ صرف اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا ہے اور وہ کِیا ہے جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔” اسی عزم نے دنیا میں کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا ہے کہ جو اپنی زندگی میں ایسی تبدیلیاں لائے ہیں، جن سے ماحولیات کو پہنچنے والے نقصان میں کمی آئے گی۔ جو سفر اگست 2018ء میں سوئیڈن کی پارلیمنٹ کے باہر نیلے رنگ کی جیکٹ پہنی چھوٹی سی لڑکی سے شروع ہوا، صرف ایک سال میں ستمبر 2019ء میں اس مقام تک پہنچا کہ دنیا بھر میں 40 لاکھ لوگ ماحول کے حق میں مظاہروں کے لیے باہر نکلے۔ یہ انسانی تاریخ میں ماحولیات کے حق میں ہونے والے سب سے بڑا مظاہرے تھے، جن کا سہرا اس نوعمر لڑکی کو جاتا ہے۔
جواب دیں