پاکستان میں یوٹیوب ٹرینڈز شرمندہ کرنے کے لیے کم تھے کہ گزشتہ دو روز سے ٹوئٹر ٹرینڈز نے عوام کے سر شرم سے جھکائے ہوئے ہیں۔ سیاسی اختلافات کا شائستہ اظہار غالباً ہمارے لیے دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اسی لیے دو روز تک ایسے واہیات اور بیہودہ ٹرینڈز ٹوئٹر کا حصہ بنے رہے کہ جن کے بارے میں بتانا، ان کا ذکر کرنا بھی ناممکن ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی سیاست سے وابستہ مختلف خواتین کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن اس حوالے سے جس طوفانِ بدتمیزی کا سامنا خواتین صحافیوں نے کیا ہے، اور اب بھی کر رہی ہیں، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ عاصمہ شیرازی سے لے کر غریدہ فاروقی اور ریحام خان سے لے کر نسیم زہرہ تک، کون سی ایسی خاتون صحافی ہیں کہ جنہیں بدترین ٹرولنگ، گالم گلوچ، ہراسگی، یہاں تک کہ کھلم کھلا دھمکیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
یہ معاملہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ رواں سال پاکستان بھر کی خواتین صحافیوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں انہوں نے نہ صرف برسرِ اقتدار جماعت بلکہ تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں بالخصوص سوشل میڈیا وِنگز سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھرپور مذمت کی اور کہا کہ ان کی وجہ سے خواتین صحافیوں کو سخت ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ پھر بات محض بدنام کرنے یا گالم گلوچ تک محدود نہیں بلکہ انہیں اپنی سلامتی کا خوف تک لاحق ہو گیا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا ابھی چند روز پہلے ہی ہم نے بھارت میں خواتین صحافیوں کے خلاف آن لائن اور آف لائن یعنی حقیقی زندگی میں بھی پرتشدد رویّے پر بات کی گئی تھی۔ اس میں ایک صحافتی تنظیم نے بتایا تھا کہ مارے گئے 40 فیصد صحافیوں کو پہلے آن لائن دھمکیاں مل چکی تھیں یعنی کہ یہ محض خالی خولی دھمکیاں نہیں ہوتیں بلکہ موقع ملنے پر کوئی ان پر عمل بھی کر گزرتا ہے۔
پاکستانی خواتین صحافی کہتی ہیں کہ میڈیا سے وابستہ خواتین کو آن لائن جس طرح کی بے ہودگی کا سامنا ہے، اس پر نہ صرف حکومت بلکہ سیاسی جماعتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی خاموش ہیں۔ ایسی حرکات کے مرتکب افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔
آن لائن اجتماعی ٹرولنگ کا نشانہ سب سے زیادہ وہ خواتین صحافی بنتی ہیں جن کی کوئی رپورٹ کسی سیاسی جماعت پر تنقید کر رہی ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو برسرِ اقتدار سے لے کر حزبِ اختلاف میں موجود تمام جماعتوں سے وابستہ کارکنان جتھوں کی صورت میں پہنچ جاتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بسا اوقات اس صورت حال میں خود اس جماعت کی قیادت بھی اپنے ایسے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہے۔
اس کے علاوہ صحافیوں کو، جن میں مرد و خواتین میں کوئی امتیاز نہیں، جھوٹی خبریں پھیلانے والے، کسی کے سیاسی ایجنڈے کو پھیلانے والے، "لفافے” لینے والے اور کئی قسم کے القابات کا سامنا رہتا ہے اور یہ سب مخصوص سیاسی جماعتیں اور ان کے کارندے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کرتے ہیں تاکہ ان صحافیوں کی کریڈیبلٹی ختم ہو جائے۔
ابھی کچھ روز پہلے ہی پاکستان تحریکِ انصاف کے ایک ویریفائیڈ ٹوئٹر اکاؤنٹ سے صحافیوں کی دو فہرستیں جاری ہوئی تھیں۔ ایک "اچھے صحافی” اور دوسرے "بُرے صحافی”۔ اس مؤخر الذکر فہرست میں 9 میں سے 3 خواتین صحافی تھیں۔
PTI official verified accounts have launched a campaign list of their favourites and hated media persons. This is how PTI and it’s sitting government takes criticism. #Journalismisnotacrime pic.twitter.com/TBZqxXd9sL
— Asma Shirazi (@asmashirazi) December 2, 2020
Online attacks on Pakistani #womenjournos continue to escalate. CFWIJ condemns the vicious attacks by PTI trolls against these brave #women #journalists. Bias linked to PTI makes up 42% of #gendertrolling campaigns launched against #WIJ.
➡️https://t.co/pghdVRS50X pic.twitter.com/Zw7P5Bu34a
— #WomenInJournalism (@CFWIJ) December 2, 2020
خواتین صحافیوں کا معاملہ اس لیے بھی زیادہ حساس ہے کیونکہ ان کی موجود تصاویر اور وڈیوز تک کو استعمال کر کے ان کو دھمکایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ مرد صحافیوں کے خاندان کی خواتین کو بھی نہیں بخشا جاتا کہ جنہیں کھلے عام دھمکایا جاتا ہے۔
پاکستان کی ان خواتین صحافیوں نے اپنے اجتماعی بیان میں کہا تھا کہ سب سے افسوس ناک پہلو حکمران جماعت سے وابستہ سوشل میڈیا سیلز ہیں کہ جو غالباً عوام کے ٹیکس کے پیسوں ہی سے چلتے ہیں اور ان کا صرف ایک ہی کام نظر آتا ہے، ہر اس صحافی اور تجزیہ کار کو بدنام کرنا کہ جو حکومت کی پالیسیوں کا ناقد ہے۔ اس مہم میں ان کا سب سے آسان شکار خواتین صحافی ہوتی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سیاسی جماعتیں اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کی شفاف تحقیقات کریں اور الیکشن کمیشن سے بھی کہا کہ وہ ان سوشل میڈیا سیلز کی جانچ کرے۔
صحافت یا کوئی بھی پیشہ ہو، اپنی پیشہ ورانہ ذمہ دارانہ انجام دینے کے لیے جو ماحول درکار ہوتا ہے، جس طرح کی ذہنی، جسمانی اور جذباتی سلامتی کا تحفظ ضروری ہوتا ہے، وہ موجودہ ماحول میں بالخصوص خواتین صحافیوں کو میسر نہیں آ رہا۔
سوشل میڈیا پر تازہ ٹرینڈز نے ایک مرتبہ پھر سوال اٹھا دیا ہے کہ ہمارا معاشرہ جو خواتین کی عزت و احترام کے بلند و بانگ دعوے کرتا ہے، حقیقت کیا ہے؟ وہ ایسے ٹرینڈز سے عیاں ہے۔ ثناء خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہے؟
Pingback: خواتین صحافیوں کے خلاف دھمکیاں وبائی صورت اختیار کر گئیں - دی بلائنڈ سائڈ