افغانستان میں خاتون صحافی اور عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن ملالہ میوند کو قتل کر دیا گیا ہے۔
ملالہ کا تعلق انعکاس ریڈیو اور ٹیلی وژن سے تھا، جس کے لیے وہ رپورٹنگ کیا کرتی تھیں۔ وہ صوبہ ننگرہار کے دارالحکومت میں جلال آباد میں اپنے ڈرائیور محمد طاہر کے ساتھ دفتر جا رہی تھیں کہ راستے میں ان پر مسلح افراد نے حملہ کر دیا، جس میں ملالہ اور طاہر دونوں جاں بحق ہوگئے۔
اس قتل کے ساتھ ہی رواں سال افغانستان میں مارے جانے والے صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کی تعداد 10 تک جا پہنچی ہے۔ ابھی گزشتہ ماہ ہی ریڈیو آزادی کے الیاس داعی صوبہ ہلمند میں اور طلوع نیوز کے سابق پریزینٹر یما سیاواش کابل میں ہونے والے دھماکے میں جاں بحق ہوئے تھے۔
ننگرہار عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا گڑھ ہے، لیکن ابھی تک ملالہ میوند کے قتل کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔ البتہ افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان کہتے ہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں جتنے بھی صحافی مارے گئے ہیں، ان میں سے اکثریت کے قتل کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔ لیکن طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طالبان اس واقعے میں ملوث نہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ‘انعکاس’ کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ 2018ء میں اس ادارے کے مالک انجینیئر زلمی بھی تاوان کے لیے اغواء ہو چکے ہیں۔ جبکہ خود ملالہ میوند بھی اپنے خاندان کی پہلی خاتون نہیں ہیں۔ پانچ سال پہلے ان کی والدہ کو بھی نامعلوم مسلح افراد نے قتل کر دیا تھا۔ وہ بھی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی تھیں۔
افغان صحافیوں کا کہنا ہے کہ ملالہ کے قتل کے ساتھ ہی خواتین صحافیوں کے لیے میدانِ عمل مزید چھوٹا ہو گیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اب صحافی اس طرح اپنے فرائض انجام نہ دیں، جیسا کہ پہلے دیا کرتے تھے۔
افغان حکومت، جرمن سفارت خانے، یورپی یونین کے وفد اور برطانوی سفیر نے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر بڑھتے ہوئے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جواب دیں