انسانی حقوق کا عالمی دن، وہ خواتین جنہوں نے ‘عالمی منشور’ بنایا

آج انسانی حقوق کا عالمی دن ہے۔ ٹھیک 72 سال پہلے اقوامِ متحدہ نے آج ہی کے دن ‘انسانی حقوق کے عالمی منشور’ (UDHR) کا اعلان کیا تھا۔ اسی کی یاد میں اب ہر سال 10 دسمبر انسانی حقوق کے عالمی دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ حقوقِ انسانی کے اس عظیم منشور کی تیاری میں خواتین کا بہت اہم اور بنیادی نوعیت کا کردار تھا؟ یہی نہیں بلکہ اس میں ایک پاکستانی خاتون بھی شامل تھیں؟ آئیے آپ کو ان عظیم خواتین کے بارے میں بتاتے ہیں جنہوں نے تاریخ کے ایک عظیم ترین مسودے کی تیاری میں اپنا قیمتی حصہ ڈالا۔

انسانی حقوق کے عالمی منشور کا مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی کی چیئرپرسن سابق امریکی خاتونِ اوّل ایلیانور روزویلٹ تھی۔

آپ 1933ء سے 1945ء تک امریکا کی خاتونِ اوّل رہیں، اور 1946ء میں امریکی صدر ہیری ٹرومین نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے وفد میں آپ کو شامل کیا۔ ایلیانور انسانی حقوق کے کمیشن کی پہلی چیئرپرسن تھیں کہ جنہوں نے اس عالمی منشور کا مسودہ تیار کیا تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب مشرق اور مغرب کے درمیان تناؤ بڑھ رہا تھا، ایلیانور نے اپنے اثر و نفوذ اور ساکھ کا استعمال کیا اور دونوں سپر پاورز کو ایک ایسے مسودے تک پہنچایا، جو آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔

1968ء میں ایلیانور روزویلٹ کو بعد از وفات اقوامِ متحدہ کا ‘حقوقِ انسانی انعام’ (ہیومن رائٹس پرائز) دیا بھی گیا۔

انسانی حقوق کے کمیشن میں دو خواتین شامل تھیں، ایلیانور کے بعد دوسری بھارت کی ہنسا مہتا تھیں۔ ملک اور بیرونِ ملک خواتین کے حقوق کی زبردست حامی ہنسا نے اس عالمی دستور میں وہ دفعہ تبدیل کروائی جس میں کہا گیا تھا کہ "تمام آدمی آزاد اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں”۔ اب یہ دفعہ "تمام انسان آزاد اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں،” ہے۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ

پاکستان کی بیگم شائستہ اکرام اللہ جنرل اسمبلی کے تیسرے کمیشن برائے سماجی، انسانی و ثقافتی امور کی رکن تھیں۔ اس کمیشن نے 1948ء میں اس عالمی دستور کی تشکیل کے لیے 81 اجلاس منعقد کیے تھے، جن میں بیگم شائستہ اکرام اللہ کا زور آزادی، برابری اور حقِ انتخاب پر تھا۔ انہوں نے دفعہ 16 کی منظوری کے لیے کافی کام کیا کہ جو شادی میں مرد اور عورت کے لیے برابر کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ ان کے خیال میں اس کا بچپن کی شادی اور جبری شادی کو روکنے میں اہم کردار ہوگا۔ دفعہ 16 کہتی ہے کہ "بالغ مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی ایسی پابندی کے جو نسل، قومیت یا مذہب کی بنا پر لگائی جائے شادی بیاہ کرنے اور گھر بسانے کا حق ہے۔ مردوں اور عورتوں کو نکاح، ازدواجی زندگی اور نکاح کو فسخ کرنے کے معاملے میں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ نکاح فریقین کی پوری اور آزاد رضامندی سے ہوگا۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ نے 1940ء میں یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کیا تھا، وہ یہ کارنامہ انجام دینے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں۔ تحریکِ پاکستان میں بیگم شائستہ کا کردار بہت نمایاں تھا یہاں تک کہ وطنِ عزیز کے قیام کے بعد آپ کو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے وفد کا حصہ بنایا گیا، جہاں انہوں نے ‘انسانی حقوق کے عالمی دستور’ کی تیاری میں اپنا کردار ادا کیا۔ آپ نے 1960ء کی دہائی میں مراکش میں پاکستان کی سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ بیگم شائستہ کا انتقال 11 دسمبر 2000ء کو کراچی میں ہوا، یعنی کل (جمعہ 11 دسمبر 2020ء کو) آپ کی 20 ویں برسی ہے۔ آپ کو بعد از وفات نشانِ امتیاز سے نواز گیا تھا۔

اقوام متحدہ انسانی حقوق کے عالمی منشور کی تیاری میں جن خواتین کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے ان میں ڈومینکن جمہوریہ کی سفارت کار اور حقوقِ نسواں کی کارکن منروا برنارڈینو، ڈنمارک کی بودل بیگترپ، فرانس کی میری ہیلن لیفاشے، سوویت ریاست بیلاروس کی ایودوکیا اورالووا اور بھارت کی لکشمی مینن شامل ہیں۔

بودل بیگترپ نے عالمی دستور کی دفعہ 26 میں اقلیتوں کو شامل کرنے کی تجویز دی تھی، لیکن اُس وقت کے لحاظ سے ان کے خیالات کافی متنازع تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس عالمی دستور میں اقلیتوں کے حقوق کا باضابطہ ذکر نہیں ہے۔ البتہ سب کو برابری کے حقوق دینے کی بات ضرور کی گئی ہے۔

میرین ہیلن لیفاشے نے دفعہ 2 میں صنف کی بنیاد پر امتیاز نہ برتنے کی کامیاب جدوجہد کی اور آج یہ دفعہ کچھ یوں ہے: "ہر شخص ان تمام آزادیوں اور حقوق کا مستحق ہے کہ جو اس اعلان میں بیان کیے گئے ہیں اور اس حق پر نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب اور سیاسی تفریق کا یا کسی قسم کے عقیدے، قوم، معاشرے، دولت یا خاندانی حیثیت وغیرہ کا کوئی اثر نہ پڑے گا۔”

اورالووا نے عورتوں اور مردوں کے لیے کام کے یکساں معاوضے پر زور دیا۔ آج انہی کی کوششوں کی وجہ سے عالمی دستور کی دفعہ 23 کہتی ہے کہ "ہر شخص کو کسی تفریق کے بغیر مساوی کام کے لیے مساوی معاوضے کا حق ہے۔

لکشمی مینن کا زور عالمی دستور میں صنف کی بنیاد پر عدم امتیاز پر تھا، انہوں نے ہی "مردوں اور عورتوں کے یکساں حقوق” کا ذکر شامل کروایا۔ وہ انسانی حقوق کی "آفاقیت” کی بڑی حامی تھیں۔

One Ping

  1. Pingback: خواتین کی آپ بیتیاں، جو مردوں کو ضرور پڑھنی چاہئیں - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے