کرونا وائرس کی وباء نے جہاں دنیا بھر کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے وہیں خواتین خاص طور پر ان حالات کی زد میں آئی ہیں۔ لیکن بھارت کی 200 ارب ڈالرز کی ٹیکنالوجی سروسز انڈسٹری میں نئے قواعد و ضوابط خواتین کے لیے نئے مواقع اور کافی آسانیاں پیدا کریں گی۔
نئی دہلی کے نواح میں 45 سالہ ٹینا لکھاری نے 2018ء میں ایک کمپنی کی ملازمت اس لیے چھوڑ دی تھی کیونکہ وہ اپنے گھر میں ایک ہنگامی طبّی مسئلے سے نمٹ سکیں۔
لیکن اس سال انہوں نے ایک مرتبہ پھر ملازمت کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ماحول کافی تبدیل ہوا ہے۔ وباء نے گھر سے کام کرنے کی سہولت عام کی ہے جو ویسے سرے سے موجود نہیں تھی۔
ٹینا کو نہ صرف WNS گلوبل سروسز میں فوری ملازمت مل گئی، بلکہ وہ کام بھی اپنے گھر سے بیٹھ کر کر رہی ہیں۔ جبکہ ان کا دفتر 900 میل دور پونے شہر میں واقع ہے جہاں وہ 100 ملازمین کی نگرانی کی ذمہ داریاں انجام دے رہی ہیں۔ یوں وہ بھارت میں ریموٹ ورک پر عائد پابندیوں کے خاتمے کا فائدہ اٹھانے ابتدائی خواتین میں سے ایک بن گئی ہیں۔
نئے قواعد و ضوابط کے مطابق ٹیک سروس کی صنعت اب ملازمین کو دفاتر مین آنے کے بجائے کہیں سے بھی کام کرنے کی اجازت دے سکتی ہے اور اگر ضرورت پڑے تو یہ اجازت مستقل بھی ہو سکتی ہے۔
پاکستان کی طرح بھارت میں بھی خواتین کو اپنے شوہر کے کیریئر، یا دیگر مسائل کی وجہ سے اپنے کیریئر کی قربانی دینا پڑتی ہے، لیکن اس پالیسی سے انہیں فائدہ حاصل ہوگا۔ ٹینا کہتی ہیں کہ ایک سال پہلے تک آپریشنز لیڈر کی حیثیت سے دُور بیٹھ کر کام کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ کیونکہ ٹینا نے خود کئی خواتین کو بچے کی پیدائش، شادی یا خاندان کے کسی رکن کے بیمار پڑنے کی وجہ سے نوکریاں چھوڑتے دیکھا تھا۔ ان کے بقول یہ تبدیلی کئی خواتین کے لیے ایک گیم چینجر ہوگی۔
بھارت انگریزی بولنے والے گریجویٹس کی بڑی تعداد اور مغرب کے مقابلے میں کم تنخواہوں کی وجہ سے مقبول ہے۔ آؤٹ سورسنگ کے شعبے سے ملک میں 45 لاکھ افراد وابستہ ہیں اور کئی بڑے بینکوں کے مراکز یہاں موجود ہیں۔
لیکن وباء نے جہاں دنیا بھر میں دفتری حالات بدل دیے، وہیں اس کے اثرات بھارت میں بھی محسوس کیے گئے۔ خواتین ویسے ہی سماجی رسومات کے بندھن میں جکڑی ہوئی ہیں کہ جنہیں شوہر کے گھر منتقل ہونے یا کسی چھوٹے شہر میں خاندان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ یہ نہ ہو تو بزرگوں اور بچوں گی دیکھ بھال کے لیے ہی گھروں میں رہتی ہیں۔ یوں کئی کوالیفائیڈ لڑکیاں اپنا کیریئر تیاگ دیتی ہیں اور میدانِ عمل میں نظر نہیں آتیں۔ اب اس معاملے میں لچک دکھانے اور دفتر کے بجائے کہیں سے بھی کام کرنے کی اجازت ملنے کے بعد خواتین کو ایسے مواقع ملیں گے جو پہلے دستیاب نہیں تھے۔
بھارت میں ٹیک سروسز کے شعبے میں ایک تہائی عملہ خواتین پر مشتمل ہے، یعنی ویسے ہی ملک کی دیگر صنعتوں کے مقابلے میں اس شعبے میں صنفی توازن پایا جاتا ہے لیکن امید ہے کہ ان نئے قوانین سے یہ تناسب مزید بہتر ہو جائے گا۔
جواب دیں