افغانستان کی واحد لیفٹیننٹ جنرل اور ملک میں وزارت کے عہدے پر فائز ہونے والے چند خواتین میں سے ایک سہیلہ صدیق 72 سال کی عمر میں انتقال کر گئی ہیں۔ انہیں تقریباً چھ سالوں سے الزائمر کا مرض تھا۔
ان کی وفات پر ملک کے اعلیٰ رہنماؤں، طبی ماہرین اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ سابق وزیر خارجہ عبد اللہ عبد اللہ نے کہا ہے کہ طب، فوج اور معاشرے کے دیگر طبقات میں خواتین کو اپنا مقام دلانے میں سہیلہ کا کردار قابلِ تحسین اور ناقابلِ فراموش تھا۔ وہ آج اپنی وردی پر فخر کرنے والی ان گنت خواتین کی پیشرو تھیں اور ان کی شخصیت آئندہ بھی تحریک دیتی رہے گی۔ "آپ کی یادیں اور آپ کی پوری زندگی ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہے۔”
سہیلہ صدیق 1948ء میں افغان دارالحکومت کابل کے ایک متمول گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ آپ نے اسی شہر میں طب کی تعلیم حاصل کی اور پھر ماسکو سے طبی تربیت مکمل کرنے کے بعد ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے افغانستان واپس آئیں۔
سہیلہ صدیق کی شخصیت اس وقت نمایاں ہوئی جب افغانستان کی ماسکو نواز حکومت نے انہیں جنرل کا خطاب دیا۔ کچھ ہی عرصے میں وہ ‘جنرل سہیلہ’ کے نام سے ملک بھر میں مشہور تھیں اور افغانستان کی معروف ترین سرجن بن گئیں۔
وہ دہائیوں تک کابل کے 400 بستروں کے ملٹری ہسپتال میں کام کرتی رہیں کہ جہاں ان کے آپریشنز کی وجہ سے سینکڑوں جانیں بچیں۔ 1990ء کی دہائی میں بھی ہسپتال کو برقرار رکھنے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا کہ جب افغانستان خانہ جنگی کا شکار تھا۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی تنخواہ ہسپتال کے ضرورت مند کارکنوں میں تقسیم کر دیا کرتی تھیں۔
بہرحال، جب 1996ء میں طالبان نے شہر کابل پر قبضہ کیا تو خواتین کے حقوق غصب کر لیے گئے۔ انہیں تعلیم اور ملازمت سے روک دیا گیا۔ اپنی ملازمت چھوڑنے کے کچھ ہی عرصہ بعد طالبان نے ایک غیر معمولی قدم اٹھایا اور سہیلہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک مرتبہ پھر آ کر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
ایک انٹرویو میں سہیلہ صدیق نے بتایا تھا کہ "ان کو میری ضرورت پڑ گئی، انہوں نے مجھے واپس بلا لیا۔ میں نے بھی شرط رکھی کہ میں اور میری بہن روایتی برقعہ نہیں پہنیں گی۔ میں جب قندھار گئی تو وہاں بھی یہ برقعہ نہیں پہنا۔” واضح رہے کہ قندھار طالبان کا گڑھ تھا۔
سہیلہ برقعے پر بہت زیادہ زور دینے کے خلاف تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "پہلی ترجیح تعلیم، بنیادی سہولیات کی فراہمی، معیشت اور ملک کی تعمیر کو دینی چاہیے، لیکن مغرب کی نظر بھی سب سے پہلے برقعے پر ہی پڑتی ہے۔”
طالبان کے خاتمے کے بعد بننے والی حکومت میں سہیلہ صدیق کو وزیر صحت بنایا گیا۔ وہ دو خواتین وزراء میں سے ایک تھیں۔ اس حیثیت سے انہوں نے ملک میں لاکھوں بچوں کو پولیو کی ویکسین دلوائی۔
انہوں نے اقوام متحدہ سے افغانستان میں خواتین کی تولیدی صحت کو بہتر بنانے اور خواتین پر مشتمل طبی عملے کی تربیت کا مطالبہ بھی کیا۔
سہیلہ نے ساری عمر شادی نہیں کی۔ جب ان سے پوچھا جاتا تھا کہ آخر آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ تو ان کا جواب ہوتا تھا مجھے اپنے پیشے سے محبت ہو گئی تھی، اور یہی میری زندگی تھا۔
جواب دیں