کرونا وائرس کے بعد خواتین سی ای اوز کی بھرتی میں واضح کمی

کرونا وائرس کی وباء شروع ہونے سے اب تک دنیا کے تمام بڑے اداروں میں خواتین کی بحیثیتِ چیف ایگزیکٹو بھرتی میں کمی آئی ہے۔

دنیا بھر میں ویسے ہی چیف ایگزیکٹو کے عہدوں پر خواتین کی نمائندگی کم ہے اور ایگزیکٹو سرچ فرم Heidrick & Strugglesکی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ نمایاں اداروں میں یہ تعداد صرف 5 فیصد ہے۔

اس امریکی ادارے نے دنیا بھر کے 20 ملکوں میں اسٹاک ایکسچینج میں درج بڑی کمپنیوں کے 965 چیف ایگزیکٹو کا جائزہ لیا ہے اور ایک رپورٹ "رُوٹ ٹو ٹاپ 2020ء” مرتب کی ہے۔

اس رپورٹ میں جنوری 2019ء سے 10 مارچ 2020ء کا تقابل 11 مارچ 2020ء کے بعد مقرر ہونے والے چیف ایگزیکٹو آفیسرز سے کیا ہے، یعنی اس دن سے جب عالمی ادارۂ صحت نے کووِڈ-19 کو ایک عالمی وباء قرار دیا تھا۔

کووِڈ-19 نے کمپنیوں کو مجبور کیا کہ وہ ایسے چیف ایگزیکٹو مقرر کریں کہ جو ثابت شدہ ٹریک ریکارڈ رکھتے ہوں اور پہلے ہی سے سی ای او کا تجربہ رکھتے ہوں اور یہ ایسی حکمتِ عملی ہے جو مردوں کے حق میں جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکتوبر 2019ء کے بعد خواتین کی بحیثیت سی ای او تقرری 12 فیصد سے گھٹ کر وباء کے اعلان کے بعد 6 فیصد تک آ گئی۔

رپورٹ نے جن ممالک کا جائزہ لیا ہے، ان میں سب سے زیادہ خواتین سی ای اوز کی شرح آئرلینڈ میں ہے جو 15 فیصد خواتین سی ای اوز رکھتا ہے جبکہ برازیل 0 کے ساتھ ان ممالک میں سب سے پیچھے ہے۔

یہ عالمی وباء کے خواتین پر پڑنے والے منفی اثرات کا ایک نیا پہلو ہے۔ اقوام متحدہ نے ستمبر میں ہی خبردار کیا تھا کہ کووِڈ-تقریبا19 مزید 47 ملین خواتین اور لڑکیوں کو غربت کی لکیر سے نیچے لے جائے گا، جس سے انتہائی غربت کے خاتمے کے لیے کئی دہائیوں کی جاری پیشرفت کو کافی نقصان پہنچے گا۔ یو این ویمن کے مطابق مجموعی طور پر مردوں کے مقابلے میں خواتین کی نوکریوں کے خطرے میں پڑنے کی شرح 19 فیصد زیادہ ہے۔

عالمی اقتصادی فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق صنفی مساوات میں 107 ممالک تقریباً 100 سال پیچھے ہیں۔ بلکہ معاشی شراکت داری اور مواقع دیکھے جائیں تو یہ فرق دو گنا سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے یعنی 257 سال تک۔ پوری دنیا میں 15 سے 64 سال کی صرف 55 فیصد خواتین ایسی ہیں جو افرادی قوت کا حصہ ہیں جبکہ مردوں میں یہ شرح 78 فیصد ہے۔

اس سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسی حکمت عملی ترتیب دی جائے جن میں خواتین بہتر مہارت رکھتی ہوں اور نت نئے چیلنجز کے مطابق ان کی دوبارہ تربیت بھی کی جائے۔ اس میں ‘چوتھے صنعتی انقلاب’ کے بعد ملنے والے مواقع کا فائدہ اٹھانا بھی شامل ہے جیسا کہ ڈیٹا، مصنوعی ذہانت اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے شعبوں میں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے