مصر کی حکومت ملک میں شادی کے قوانین میں تبدیلی کرنے والی ہے کہ جس میں شادی کی کم از کم عمر طے کرنے کے ساتھ ساتھ کم عمری کی شادی پر زیادہ جرمانے کی سزائیں بھی شامل ہوں گی۔
بچپن کی شادی کو غیر قانونی قرار دینے کا قانون قومی منصوبہ برائے خاندانی منصوبہ بندی کی حیثیت سے صدر عبد الفتاح السیسی کو پیش کیا جائے گا، کہ جس کا آغاز اگلے سال ہوگا۔ اس قانون کے تحت 18 سال سے کم عمر کی شادی کو بچپن کی شادی سمجھا جائے گا۔
مصر میں کم عمری کی شادی عام ہے، دنیا بھر میں جہاں سب سے زیادہ ایسے واقعات کے لحاظ سے مصر 13 ویں نمبر پر ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی جوڑے کی شادی پہلے ہی کر دی جاتی ہے، لیکن اسے رجسٹر 18 سال کی عمر میں کیا جاتا ہے۔ ان غیر رجسٹرڈ شادیوں کے عمل کو ‘عرفی’ کہا جاتا ہے۔
ایک تنظیم "Girls Not Brides” کے مطابق مصر میں 18 سال سے کم عمر کی 17 فیصد لڑکیاں بچپن کی شادی سے متاثر ہوتی ہیں اور 15 سال سے کم عمر میں بھی یہ شرح دو فیصد ہے۔
مصر نے 2008ء میں ایک قانون کے ذریعے عمر میں دو سال کا اضافہ کر کے اسے 18 سال کر دیا تھا۔
خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے "Equality Now” کی مشیر برائے مشرق وسطیٰ/شمالی افریقہ سعاد ابو دیہ کہتی ہیں کہ کم عمر کی شادی کو روکنے کے لیے قانون سازی کے تین اہم حصے ہیں۔ ایک تو قانون میں بالکل واضح ہونا چاہیے کہ 18 سال شادی کی کم از کم عمر ہے، اس میں کسی کو استثنیٰ نہیں ہونا چاہیے کہ جس کا فائدہ اٹھا کر جج کسی بھی ایسی شادی کو قانونی قرار دے۔ یہ بالکل واضح ہو کہ جو بھی 18 سال سے کم عمر کی لڑکی سے شادی کرے گا، اسے سزا ملے گی اور سزا بھی سخت ہونی چاہیے۔ جرمانہ زیادہ ہو یا قید کی سزا دی جائے تو شاید ہمیں مصر کے ساتھ ساتھ دیگر ملکوں میں بھی بچپن کی شادیاں کم ہوتی نظر آئیں۔
18 سال کو شادی کی کم از کم عمر قرار دینے کے حوالے سے مصر کا قانون ذرا مبہم ہے، اس لیے سعاد ابو دیہ کا زور ہے کہ "کوئی اسثنیٰ نہ دیا جائے” تاکہ کوئی بھی قانون کو جھانسہ نہ دے سکے جیسا کہ اردن اور فلسطین میں ہو رہا ہے کہ جہاں قانوناً تو 18 سال سے کم عمر میں شادی پر پابندی ہے لیکن تکنیکی طور پر ایسا ہو نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ اگر شادی کی عمر کم از کم 18 سال ہونے کا قانون موجود بھی ہے تو اسی قانون میں کچھ استثنیٰ بھی ہو تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ججوں کو کھلی چھوٹی دی جائے کہ وہ اپنے ذاتی اعتقادات کو دیکھتے ہوئے اس مقدمے کا فیصلہ کریں۔ جیسا کہ اردن میں ہے کہ قانوناً تو شادی کی کم از کم عمر 18 سال ہے لیکن اسی قانون میں تین ایسی شقیں موجود ہیں جو ججوں کو اختیار دیتی ہیں۔ فلسطین میں بھی یہی ہے۔ بدقسمتی سے ایسے ججوں کی خاصی تعداد موجود ہے جو بچپن کی شادی پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ 18 سال سے کم عمر کی شادی کو قبول کر لیتے ہیں۔
ابو دیہ نے بتایا کہ مصر میں بچپن کی شادیاں مختلف قسم کی ہیں، جن میں "سیاحوں کی شادی” بھی شامل ہے۔ ان واقعات میں زیادہ تر خلیجی ممالک کے شہری شامل ہوتے ہیں جیسا کہ بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے، جو تعطیلات کے لیے مصر آتے ہیں اور پھر ان دیہی علاقوں کا رخ کرتے ہیں جو بچپن کی شادی کے لیے مشہور ہیں۔ یہ سیاح کسی لڑکی کے خاندان کو ایک رقم کے بدلے میں ان سے شادی کر لیتے ہیں اور جب ان کا "سیاحتی دورہ” مکمل ہو جاتے ہیں تو واپس چلے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار کچھ لڑکیاں حاملہ بھی ہو جاتی ہیں، تو ان کو نان نقفہ دینے والا کوئی نہیں ہوتا، درحقیقت انہیں کچھ نہیں ملتا۔ کوئی قانونی حق بھی نہیں کیونکہ یہ شادیاں رجسٹرڈ ہوتیں ہی نہیں۔ پھر اگر یہ شادی باقاعدہ بھی ہو تو ریپ ہے، لڑکی حامی نہیں بھرتی، اور بھر بھی لے تو اس کی اہمیت نہیں۔
"اکوالٹی ناؤ” کی مشیر نے کہا کہ مصر میں بچپن کی شادی کی کئی وجوہات ہیں۔ "بچپن کی شادی کی حقیقت یہ ہے کہ آپ اپنی بیٹی غربت، بے روزگاری اور کبھی کبھی ثقافتی مسائل کی وجہ سے بھی کسی خاص رقم کے بدلے میں بیچتے ہیں۔ چند خاندانوں کا ماننا ہے کہ عورت کی عزت تبھی ہوتی ہے جب وہ شادی شدہ ہو۔ مجموعی طور پر یہ عرب ذہنیت ہے اور یہی ذہنیت مصر میں بھی ہے کہ عورت کا نصیب اصل میں اپنے شوہر کے ساتھ ہے، اور اس کی زندگی شوہر کا اور اس کے بچوں کا خیال رکھنا ہے۔”
رضا الدنبوقی ایک وکیل ہیں اور رہنمائی و قانونی آگہی کے لیے مرکزِ خواتین کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کی جاتی ہے تو ٹھیک ہے، لیکن اگر اسے 18 سے کم لاتے ہیں تو یہاں مسئلہ ہوگا کیونکہ یہ مصری قوانین اور عالمی معاہدوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مصر کے آئین کی دفعہ 80 کا حوالہ دیا کہ جس کے مطابق 18 سال سے کم عمر کے افراد بچے شمار ہوتے ہیں ان کو "جنسی استحصال” سے بچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پھر اقوام متحدہ کا کنونشن ہے جس کی مصر بھی توثیق کرتا ہے کہ جو بچپن کی شادی پر پابندی لگاتا ہے۔ دفعہ 93 کے مطابق ملک کے توثیق شدہ معاہدے اور کنونشن بحیثیت قانون لاگو ہوں گے۔
رضا الدنبوقی نے کہا کہ بچپن کی شادی کئی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ اگر عورت 18 سال سے پہلے شادی کرتی ہے تو وہ اچھی تعلیم حاصل نہیں کر سکتی۔ پھر چھوٹی عمر میں بچے کی پیدائش سے پیچیدگیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بچپن میں ماں بن جانے والی لڑکی اپنی اولاد کے پرورش کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا کرتی ہے۔ شادی کے بعد انہیں شوہر کے گھر پر ہی رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ جہاں ساسیں ان کو اپنا فرمانبردار اور مطیع بننے پر مجبور کرتی ہیں اور اس سے ان کے ساتھ بدسلوکی اور مار پیٹ کا دروازہ بھی کھلتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کے چند پہلو تو اچھے ہیں لیکن خواتین کے حقوق کو پوری طرح پیش کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ طلاق کی صورت میں عدالت میں بچوں کی تحویل کا معاملہ ہو تو ان مقدمات کو فوراً نمٹانا چاہیے۔ خواتین کا کوئی بھی مقدمہ ہو اسے چھ مہینے میں ختم ہونا چاہیے، آج کی طرح دو، تین سال میں نہیں اور اس حوالے سے قانون بالکل واضح ہونا چاہیے۔
Pingback: قطر میں پہلے انتخابات، خواتین کے احتیاط کے ساتھ اٹھتے قدم - دی بلائنڈ سائڈ