ایک افغان خاتون جو انسانی حقوق کی محافظ بن گئیں

بدخشان میں پیدا ہونے والی مریم امواج نے اپنی زیادہ تر زندگی یہیں گزاری ہے۔ گزشتہ 20 سال کے دوران وہ افغانستان آزاد انسانی حقوق کمیشن (AIHRC)، ویمن فار افغان ویمن (WAW) کے بدخشاں چیپٹر اور اس کے ویمن پروٹیکشن سینٹر (WPC) کے لیے کام کر چکی ہیں۔

مریم کہتی ہیں کہ میں نے طلاق یافتہ خواتین کو سڑکوں پر بھیک مانگتے دیکھا ہے۔ اور میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ ایسی خواتین کے لیے مدد کے لیے میں نے کیا کرنا ہے۔ جو راستہ میں نے چنا وہ کبھی بھی آسان نہ تھا۔ افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے کا مطلب ہے ناپسندیدگی، رکاوٹیں اور کبھی کبھی تو دھمکیاں بھی۔”

خواتین کے لیے پناہ گاہیں بنانا خاص طور پر ایک بڑآ چیلنج تھا۔ مریم کو مظلوم خواتین کے رشتہ داروں کی جانب سے موت کی دھمکیاں تک ملیں۔ بسا اوقات انہیں برادری سے بھی نکالا گیا۔ لیکن مریم کے مطابق "ان مشکل لمحات میں میرے شوہر ہمیشہ میرے ساتھ کھڑے رہے، انہوں نے مجھے حوصلہ دیا اور میری طاقت بنے۔ مجھے پتہ چلا کہ میں اس کام سے دستبردار نہیں ہو سکتی۔”

اس مشکل میں مریم کا انحصار صوبائی سکیورٹی اداروں، محکمہ امور خواتین اور AIHRC پر ہے۔

وہ مقامی بزرگوں اور مذہبی رہنماؤں سے بات کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتیں، یعنی ایسے لوگ جو بات سننے کے بجائے بات کرنے کے زیادہ قائل ہیں اور عادی بھی۔ مریم کی اعلیٰ تعلیم اور مذہبی تعلیمات کی وسیع معلومات نے انہیں دلیل سے بات کرنے کا عادی بنایا ہے، اس طرح مذہبی اور عام روایتی اقدار اور خواتین کے تحفظ کے درمیان کوئی تضاد نہیں چھوڑتیں۔

مریم اب بھی سمجھتی ہیں کہ دو دہائیوں کے تھکا دینے والے کام کے بعد بھی ابھی سفر کی محض شروعات ہی ہوئی ہے، یہ کام تھا خواتین کے حقوق کو جزوی حقیقت کا روپ دینے کا، اور پناہ گاہ میں تشدد سے بچ کر آنے والی خواتین کو نئی زندگی گزارنے میں مدد دینے کا۔

مریم کہتی ہیں کہ کام جاری رہنا چاہیے کیونکہ کرنے کے لیے کام ہی اتنا زیادہ ہے، مدد کی حقدار خواتین بہت زیادہ ہیں۔ بدخشان کے ویمن پروٹیکشن سینٹر میں ہم 10 سال میں تقریباً 2 ہزار خواتین اور لڑکیوں کی مدد کر چکے ہیں جو سخت تشدد کا نشانہ بنیں۔ اس کام میں ان خواتین کو پناہ دینا، ان کے لیے وکلاء کا انتظام کرنا اور ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لانا شامل ہے۔ "ہر روز تقریباً 20 خواتین اور لڑکیاں ہمارے دفتر میں آتی ہیں اور قانونی مشاورت طلب کرتی ہیں۔ یہ اب بھی سمندر میں ایک قطرے جتنا ہے، لیکن ہمارے جیسے قدامت پسند معاشرے میں یہ ایک بڑا قدم ہے۔ عورتیں اور لڑکیاں ہم پر اعتماد کرتی ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ "میں ایسی خاتون ہوں جو پلی، بڑھی اور پڑھی بھی افغانستان میں ہوں۔ میں اس سرزمین کی عورت کا درد سمجھتی ہوں۔ مجھے عورتوں پر یقین ہے ہی، لیکن میں پورے معاشرے پر بھی یقین رکھتی ہوں۔ میں نے مردوں سے بات کی، میں نے سرکاری ملازمین سے بات کی، پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے بات کی اور ان کے ساتھ بھی جو میرے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ہمیں خاموش کرانا ممکن نہیں۔ ہمارا یقین مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے انسانی حقوق پر ہے۔ انہیں باہمی احترام کے طور پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے