کویت میں دہائیوں کی جدوجہد کے بعد عورتوں کو ووٹ دینے اور انتخابات میں حصہ لینے کا حق ملے تقریباً 15 سال ہو چکے ہیں، لیکن اب بھی سیاسی زندگی میں ان کا حصہ محدود ہے۔
گزشتہ چار سال کی پارلیمانی مدت کے دوران، جس کا آغاز دسمبر 2016ء میں ہوا تھا، صرف ایک خاتون صفاء الہاشم قومی اسمبلی کی رکن تھیں، جبکہ بلدیاتی انتخابات میں تو ایک خاتون امیدوار نے حصہ تک نہیں لیا۔
اب 5 دسمبر 2020ء کو ہونے والے انتخابات سے پہلے خواتین کی نمائندگی کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے پانچ سرگرم عمل کویتی خواتین نے ستمبر میں مضاوی لسٹ (Mudhawi’s List) کا آغاز کیا۔ یہ اس خلیجی ریاست میں اپنی نوعیت کا پہلا پلیٹ فارم ہے، جو عورتوں کو منتخب عہدوں تک پہنچنے میں مدد دے گا، چاہے وہ اسمبلی ہو، بلدیاتی کونسلز، طلبہ یونین، اسپورٹس کلب کے بورڈز، این جی اوز یا دیگر۔
مضاوی لسٹ کی بانیوں میں سے ایک العنود الشارخ کہتی ہیں کہ "ہمیں امید ہے کہ ہم پالیسی ساز عہدوں پر خواتین کی کمی اور ان کی ضرورت کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے میں طویل المیعاد بنیادوں پر اپنا حصہ ڈال سکیں گے، اور یہ بھی کہ ہم صرف پارلیمان ہی میں نہیں بلکہ تمام ایسے ممکنہ عہدوں پر خواتین کو پہنچانے میں مدد دے سکتے ہیں کہ جہاں کوئی منتخب ہوتا ہے۔”
5 دسمبر کو ہونے والے انتخابات میں کویت میں 50 اراکین پارلیمان کو منتخب کیا جائے گا۔ یہ انتخابات کووڈ-19 کی وباء، تیل کی گھٹتی ہوئی قیمتوں اور حال ہی میں کویت کے امیر شیخ الصباح کے انتقال اور ان کی جگہ 83 سالہ شیخ نواف کے حکمران بننے کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
اس مرتبہ اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی کا تناسب بڑھانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کی راہ مین اب بھی رکاوٹیں موجود ہیں، سیاسی اکھاڑے میں بھی اور رائے عامہ میں بھی۔
دنیا میں خواتین کو قومی انتخابات میں ووٹ کی اجازت سب سے پہلے 1893ء میں نیوزی لینڈ نے دی تھی، جبکہ متحدہ عرب امارات 2006ء اور بھوٹان 2008ء میں ایسا کرنے والے آخری ملک بنے۔ کویت میں خواتین کو پہلی بار ووٹ دیتے اور انتخابات لڑتے ہوئے 2006ء میں دیکھا گیا۔ ان انتخابات میں 28 خواتین نے حصہ لیا تھا۔
حالیہ چند سالوں میں صرف چھ خواتین تھیں جنہوں نے رکن پارلیمان کی حیثیت سے خدمات انجام دیں: اسیل العوضی، معصومہ المبارک، سلویٰ الجسار، رولا دشتی، ذکریٰ الرشیدی اور صفاء الہاشم۔ ان میں سے صفاء 2016ء کے آخری قانون ساز انتخابات میں منتخب ہوئی تھیں اور اب ایک مرتبہ پھر میدان میں موجود ہیں۔
بیبی عاشور کے لیے یہ انتخابات میں پہلا موقع ہے، کہتی ہیں کہ "یہ ایک بہت دلچسپ تجربہ ہے، روزانہ نئے چیلنجز سے بھرپور، اس میں کافی کام اور تیاریاں کرنا پڑ رہی ہیں: ٹیلی وژن پر آنے سے لے کر، پریس انٹرویوز اور اپنے سوشل میڈیا چینلز کو بھی مستقل اپڈیٹ رکھنا۔ اگر میں قومی اسمبلی تک پہنچی، تو مجھے امید ہے کہ موزوں قانون سازی کروں گی اور ایسے قوانین کی تیاری میں مدد دوں گی کہ جو ہمارے معاشرے کی سماجی انصاف کی اقدار کا تحفظ کریں۔”
عاشور سمجھتی ہیں کہ "خواتین کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں کیونکہ سیاسی دھڑے عموماً مرد امیدواروں کے حق میں ہوتے ہیں، جبکہ خواتین عموماً آزاد حیثیت سے انتخابات لڑتی ہیں۔”
ویسے تو کویت میں باضابطہ سیاسی جماعتوں پر پابندی ہے، لیکن پارلیمان میں آزاد خیال، اسلام پسند، قبائلی اور شاہ کے فرمانبردار دھڑے موجود ہیں۔ العنود الشارخ کے مطابق "حقیقت یہ ہے کہ کویت میں زیادہ تر لوگ قبائلی یا اسلام پسند امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں، جو خواتین کی سیاسی نمائندگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ "حکومت مہم پر اخراجات کی حد مقرر کرے اور نمائندگی کی بنیاد پر ایک کوٹہ سسٹم متعارف کروا کے خواتین، بلاتفریق صنف نوجوانوں اور آزاد امیدواروں کے لیے ایک منصفانہ طریقہ تشکیل دے کر انتخابات کے عمل کو زیادہ شفاف بنا سکتی ہے۔”
کویت میں انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین بدنامی کا خطرہ بھی مول لیتی ہیں، چاہے جیت جائیں تب بھی۔ ان کی کارکردگی پر سب کی نظریں ہوتی ہیں اور مردوں کے مقابلے میں ان کے بارے میں رائے عامہ بھی ذرا سخت ہوتی ہیں۔ مثلاً۔ 2006ء میں پہلی بار منتخب ہو کر اپنے دفتر پہنچنے والی چار خواتین کو میڈیا کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، جو غیر منصفانہ بھی تھا اور کئی ممکنہ خواتین امیدوار نے اس کو دیکھ کر دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔
سابق رکن پارلیمان سلویٰ الجسار نے اپنے دور میں جس عوامی دباؤ کا سامنا کیا، اس کے بارے میں کھل کر بات کرتی ہیں۔ نومبر میں اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ "مجھے دھمکانے، افواہوں، تحقیر اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔ مذاق اڑانا اور مجھے اور میرے خاندان کو تکلیف پہنچانا رائے کا اظہار نہیں بلکہ نقصان پہنچانے کی ایک قسم ہے۔”
العنود الشارخ نے کہا کہ "عورتوں کے خلاف ہم ایک ذرا مخفی اور رسمی کراہیت رکھتے ہیں، ساتھ ان کے حوالے سے تعصب کا ایک احساس بھی ہے کہ جس کا اکثر لوگوں کو اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ حکومت ان عہدوں پر بھی خواتین کا تقرر نہیں کرتی، جہاں وہ کر سکتی ہے۔ مثلاً بلدیاتی کونسل میں جہاں 10 منتخب نشستیں ہوتی ہیں اور چھ پر تقرر کیا جاتا ہے۔ 2005ء سے اب تک ہر دور میں ان پر زیادہ سے زیادہ دو خواتین کا انتخاب ہوا ہے جبکہ گزشتہ دس سال میں صرف 1 خاتون کا۔ نمائندگی کے اس فرق کو مٹانے کے لیے آخر حکومت چھ خواتین مقرر کیوں نہیں کرتی؟”
العنود الشارخ کہتی ہیں کہ کویت میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتے ہوئے انہوں نے اندازہ لگایا کہ کافی سیاسی تجربہ حاصل کرنے والے خواتین بھی انتخابات میں سرمائے کی کمی کا شکار ہوتی ہیں اور انہیں اپنی بھرپور صلاحیتوں کے اظہار اور مدد کے لیے ایسے نیٹ ورک میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جو ان کے لیے انتخابات میں لڑنا اور جیتنا ممکن بنائے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ خواتین کی ان مالی وسائل تک رسائی حاصل نہیں جو سیاسی گروہوں، قبائل یا خصوصی مفادات رکھنے والے گروہوں کو حاصل ہیں۔
مضاوی لسٹ خواتین امیدواروں کو سرمایہ، معلومات و مہارت بڑھانے اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اور تخلیقی افراد اور رضاکاروں کے ساتھ منسلک کر کے مدد فراہم کرتی ہے کہ جو مہم کے دوران ان کی مفت میں یا رعایتی قیمتوں پر مدد کرتے ہیں۔ یہ تمام اہم خدمات ان خواتین کی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر کی جاتی ہیں۔ ٹیم امیدواروں کی سی ویز کو مختصر کرتی ہے، ان کے سیاسی ایجنڈے کو پُرکشش بناتی ہے اور اس اس فارمیٹ میں لاتی ہے کہ اسے شیئر کیا جا سکے۔ زیادہ تر امیدوار اس کے بعد انہیں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے شیئر کرتے ہیں۔
اس وقت انتخابات میں 395 امیدواروں میں سے 33 خواتین ہیں، جو اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان میں سے تین خواتین پہلے بھی ماضی میں انتخابات میں حصہ لے چکی ہیں۔
العنود الشارخ کہتی ہیں کہ مضاوی لسٹ کا ایک مقصد نوجوان خواتین کو باور کرانا ہے کہ سیاسی حقوق حاصل کرنے کے لیے پچھلی نسلوں کو کتنی سخت جدوجہد کرنا پڑی تھی، اس لیے وہ انہیں مالِ مفت نہ سمجھیں۔ "ہمیں عورتوں کو یہ یاد دلانے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ ووٹ دینے والے مردوں سے زیادہ ہیں، ان کے ووٹ طاقتور ہیں اور تبدیلی لانے کے لیے ان کا استعمال بھی ہونا چاہیے۔”
کویت میں کُل 5,67,694 ووٹرز میں سے 2,93,754 خواتین ہیں جبکہ مرد 2,73,940 ہیں۔
تین مہینوں سے بھی کم وقت میں مضاوی لسٹ کے انسٹاگرام پر 2,000 سے زیادہ فالوورز ہو چکے ہیں۔ اس نے رضاکاروں، خدمات فراہم کنندگان اور بااثر خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ کیا ہے کہ جو مدد اور رہنمائی فراہم کر رہی ہیں۔ مرد بھی اپنی مدد پیش کرنے میں جھجک کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ کویتی صحافی احمد بودستور نے ٹوئٹ کیا کہ مضاوی لسٹ ایک عورتوں کا منصوبہ ہے جو قائدانہ حیثیت پر عورتوں کو بااختیار بنانے کی حمایت کرتا ہے اور قومی اسمبلی تک رسائی میں بھی ۔۔۔ جبکہ حکومت خواتین کو بااختیار بنانے کے عمل کو مسلسل نظر انداز کیے ہوئے ہے۔
لیکن سب لوگ ان کے طریقوں سے اتفاق نہیں کرتے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ مضاوی لسٹ کو اس حوالے سے کچھ معیارات رکھنے چاہئیں اور تمام خواتین کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ "کیا ہمیں اہلیت کی بنیاد پر ووٹ نہیں دینا چاہیے؟ صنف کی بنیاد پر کیوں؟”
گو کہ خلیج تعاون کونسل کے ممالک میں کام کرنے والی خواتین شہریوں کی تعداد کا سب سے زیادہ تناسب کویت میں ہے اور خواتین افرادی قوت میں مردوں سے آگے ہیں – خاص طور پر وہ سرکاری شعبے میں کیونکہ اس میں الاؤنسز، تنخواہ اور تعطیلات کی صورت میں زیادہ فائدے ہیں، لیکن سینئر عہدوں پر پھر بھی مرد موجود ہیں۔ 2019ء کی OECD رپورٹ کے مطابق خواتین کا کردار عموماً گھروں کو سنبھالنے تک محدود ہے اور انہیں اب بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ انہیں وہ قانونی حیثیت اور حقوق حاصل نہیں جو مردوں کو ملے ہوئے ہیں جیسا کہ "طلاق، بچے کی تحویل، شہریت، اور شرعی عدالت میں برابر کی شہادت”۔
بلاشبہ جون میں ایک نیا سنگِ میل حاصل ہوا کہ جب خواتین وکلاء کو پہلی بار کویت کی تاریخ میں ججوں کی پوزیشن پر مقرر کیا گیا تھا۔
العنود الشارخ کہتی ہیں کہ ایسے کئی قوانین اور ضابطے ہیں جو عورتوں کے قدم روکتے ہیں، جن پر نظرثانی کی یا انہیں منسوخ کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر وہ جو ہمارے تحفظ کے حوالے سے ہیں اور جو کیریئر میں آگے بڑھنے کے موزوں اور برابر کے مواقع کو محدود کرتے ہیں۔
اس مرتبہ پارلیمان میں انتخابات لڑنے والی سابق وزیر برائے سماجی امور و محنت غدیر اسیری کہتی ہیں کہ انہیں امید ہے کہ زیادہ خواتین اراکین منتخب ہوئیں تو اس کا کویتی خواتین کی عمومی حالت پر مثبت اثرات پڑے گا۔ "مجھے یقین ہے کہ ان انتخابات میں خواتین کی نمائندگی میں اضافہ ہوگا۔ کئی اہل خواتین ہیں جو اپنی مہم میں خوب کام کر رہی ہیں اور میری نظریں مستقبل میں ان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر لگی ہوئی ہیں۔”
غدیر اسیری نے کہا کہ خواتین کے زیادہ منتخب ہونے پر حقوقِ نسواں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کے امکانات بھی بڑھیں گے۔ "کویتی پارلیمان میں ہمیں اب بھی کسی بھی قانون سازی کے لیے اکثریت کے ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے – لیکن خواتین کی نمائندگی زیادہ ہوگی تو پارلیمان میں خواتین کے حقوق کو ترجیح حاصل ہوگی یعنی ان کے مسائل پر مؤثر اور توانا آواز ابھرے گی، جو سنی بھی جائے گی اور اس پر قانون سازی بھی ہوگی۔”
گو کہ خواتین امیدوار اور ان کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مستقبل کے حوالے سے کافی پُر امید ہیں لیکن العنود الشارخ کہتی ہیں کہ ابھی بہت سا سفر باقی ہے۔ "ہم پیش رفت تو دیکھ رہے ہیں، لیکن سست رفتار کے ساتھ، بہت چھوٹے پیمانے پر اور توقعات سے کہیں کم۔”
Pingback: عراق کے انتخابات میں حصہ لیتی سینکڑوں بہادر خواتین - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: کویت، خواتین کو پہلی بار فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت - دی بلائنڈ سائڈ