ایک عورت کو پیٹتا ہوا مرد، عورت کے ختنے اور ایک مرد کی اپنی بیوی کے ساتھ ریپ کی تصویریں، انہیں سرِ عام دکھانے پر پابندی ہے، لیکن یہ تینوں کام دنیا کے کئی ملکوں میں ہو رہے ہیں بلکہ انہیں قانونی تحفظ حاصل ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق پچھلے سال دنیا بھر میں 243 ملین خواتین کو اپنے ساتھی کے ہاتھوں بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ 40 فیصد سے بھی کم خواتین نے ان واقعات کو رپورٹ یا اس سلسلے میں کسی کی مدد طلب کی۔
اقوام متحدہ کے ادارے ‘یو این ویمن’ کی صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف ’16 دن کا ایکٹو ازم’ مہم 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر شروع ہوئی تھی اور 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن تک چلے گی۔
نیو یارک کے ایک اشتہاری ادارے MullenLowe کی جانب سے تیار کیے گئے یہ اشتہارات دراصل کسی پیغام کو واضح اور کھلے انداز میں عوام تک پہنچانے، ان کی توجہ حاصل کرنے اور انہیں حیرت زدہ کرنے کی طاقت کا اظہار کرتے ہیں۔
آرٹ ڈائریکٹر ایمیلین ایئرمین کہتی ہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر عام تکنیک سے صرفِ نظر کیا ہے۔ ہم میڈیا کے انداز سے متاثر ہوئے کہ وہ کس طرح کچھ خاص تصویروں کو آن لائن یا ٹیلی وژن پر blur کر کے یعنی دھندلا کر کے دکھاتا ہے۔ یہاں تک کہ انسٹاگرام بھی آپ کو "حساس مواد” کا انتباہ دکھاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کے ذہن میں ایک لمحے کے لیے یہ تصور آتا ہے کہ اس تصویر کو دیکھنا کتنا بدترین تجربہ ہوگا۔
مفادِ عامہ کے لیے دیے جانے والے پیغامات پر ذرا زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انہیں نہ صرف توجہ حاصل کرنا ہوتی ہے، جو میڈیا کی وجہ سے ویسے ہی حاصل کرنا مشکل ہے، بلکہ ساتھ ہی اس بیزاری کا بھی کہ جو کئی اہم مسائل کی وجہ سے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ جو نہ کبھی ختم ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے حل کی جانب کوئی قدم اٹھتا دکھائی دیتا ہے۔
اس لیے چند اداروں نے عوامی شعور اجاگر کرنے کے لیے تخلیقی لحاظ سے کچھ انتہائی جدید طریقے اپنائے اور بھرپور توجہ حاصل کی۔ جیسا کہ 2015ء میں برطانیہ میں ‘ویمنز ایڈ’ نے ایک ایسا انٹرایکٹو بل بورڈ لگایا کہ جس پر ایک مارپیٹ کی شکار عورت کی تصویر تھی، لیکن جتنے زیادہ لوگ اس کی طرف دیکھتے، اس کے زخم اتنے ہی بھر جاتے۔ پھر گزشتہ سال ‘ریفیوج’ نے گھریلو تشدد کے خوف کو ظاہر کرنے کے لیے بچوں کے کھیل چھپن چھپائی کا استعمال کیا۔ 2016ء میں ‘نیشنل سینٹر فار ڈومیسٹک وائلنس’ نے گلوکارہ ایلی گولڈنگ کے ساتھ مل کر ایک گانا بنایا اور اسے ایک میوزک وڈیو کی حیثیت سے پیش کیا۔
عورتوں پر تشدد کو روکنے کے لیے کوششیں پیہم جاری ہیں اور ان کوششوں کو مستقل نگرانی کی ضرورت ہے کیونکہ وباء کے ان ایام میں دنیا بھر میں گھریلو تشدد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
ایئرمین اور ان کے تخلیقی شراکت دار کاپی رائٹر ایم کے ہولاڈے ایسی ہی خبریں دیکھتے ہوئے چاہ رہے تھے کہ وہ اپنے احساسات کی عکاسی کریں۔ ایئرمین کہتی ہیں کہ "مفادِ عامہ کے اشتہارات ذرا طویل ہوتے ہیں، جن میں خوب کہانیاں پیش کی جاتی ہیں، لیکن ہم ذرا کچھ مختلف کرنا چاہتے تھے، ایسا کہ جو لوگوں کی فوراً توجہ حاصل کرے۔ اس لیے ہم نے براہِ راست انداز اپنایا کہ جس میں آپ کو فوری معلومات ملے اور آپ کو یہ اتنا حیران ضرور کرے کہ آپ اسے پڑھنے پر مجبور ہو جائیں۔”
یہ کام مکمل کرنے کے بعد ان کے ادارے نے ممکنہ شراکت دار کی تلاش کا آغاز کیا اور ‘یو این ویمن’ ان میں سرفہرست تھا اور یہ فوراً ہی اس کی سالانہ مہم کا حصہ بن گیا۔
"ہمیں یہ تصاویر دکھانے کی اجازت نہیں، لیکن انہیں یہ سب کرنے کی اجازت ہے۔”
جواب دیں