دنیا کے صرف ایک چوتھائی ممالک ہی ایسے ہیں کہ جہاں معذور خواتین کے حقوق کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
کووِڈ-19 کی وجہ سے صحت کا جو عالمی بحران پیدا ہوا ہے، اس نے دنیا بھر میں صنفی عدم مساوات (gender inequality) کو مزید ہوا دی ہے۔ جہاں تک بات روزگار سے محروم ہو جانے کے خطرے کی ہے تو اب مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو کہیں زیادہ اس خطرے کا سامنا ہے۔ جیسا کہ امریکا میں چائلڈ کیئر سینٹرز اور ریموٹ ایجوکیشن کی ملازمتوں سے مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو نکالے جانے کی شرح چار گنا زیادہ ہے۔ پھر بھارت میں کارخانوں کی بندش سے وہ نوجوان خواتین نئے معاشی مواقع سے محروم ہو رہی ہیں کہ جن کی خود مختار زندگی کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا۔
گھروں پر رہنے کے احکامات کی وجہ سے خواتین پر تشدد میں جو اضافہ ہوا ہے، اس نے حالات کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ اسے "اضافی وباء” کہا جا رہا ہے۔
لیکن اس صورت حال میں کسی معذوری سے دوچار خواتین کا کیا بن رہا ہے؟ ایسی خواتین کہ جن میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ معذور سے دوچار نوچوان خواتین تو عام خواتین کے مقابلے میں صنفی تشدد کے خطرات سے بھی دس گُنا زیادہ دوچار ہوتی ہیں۔
تو معاشی لحاظ سے بدحالی کا یہ دور ان خواتین کو کس طرح متاثر کرے گا کہ جو ویسے ہی تعلیم اور روزگار کے مواقع حاصل نہیں کر پاتیں کیونکہ ان کی رابطے کرنے اور رسائی حاصل کرنے کی صلاحیت محدود یا مختلف ہوتی ہے۔
پھر گھریلو تشدد کی شکار خواتین کو ضروری خدمات تک فراہمی، خاص طور پر معذوری سے دوچار خواتین کی دیکھ بھال کو مختلف ممالک کیسے یقینی بنا سکتے ہیں جبکہ وہ تو اپنی دیکھ بھال کے لیے کسی پر انحصار بھی زیادہ کرتی ہیں۔
اس حوالے سے معذوری کی شکار خواتین کے حوالے سے عالمی بینک نے ایک پائلٹ ریسرچ کی ہے۔ تحقیق کے مطابق یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک میں عام مرد و خواتین کے مقابلے میں کسی معذوری کی شکار خواتین کو امتیازی سلوک سے بچانے کے لیے کن قوانین کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
2020ء خواتین، کاروبار اور قانون (WBL) نامی اس تحقیق میں چار نئے ڈیٹا پوائنٹس شامل کیے گئے اور مقامی قانونی ماہرین کے تعاون سے 176 ممالک کی معیشتوں کا بنیادی جائزہ لیا گیا۔ یہ تحقیق معذوری سے دوچار خواتین کے حقوق کے حوالے سے قانونی ڈھانچوں کی نقشہ کشی کرنے والی اپنی نوعیت کی پہلی عالمی تحقیق تھی۔
اس تحقیق کے ابتدائی نتائج تو حیران کن تھے: 71 ممالک قانوناً معذوری سے دوچار افراد کو یکساں حقوق کی ضمانت تو دیتے ہیں، لیکن ان میں سے کسی بھی ملک کا آئین معذور خواتین کا ذکر تک نہیں کرتا۔
جہاں تک دستور کے علاوہ مدوّن قوانین کی بات ہے تو 138 ممالک معذوری سے دوچار افراد کے حقوق کا احاطہ کرتے ہیں۔ لیکن جائزے میں شامل ایک چوتھائی ممالک – یعنی صرف 35 – ہی ایسے ہیں جن میں معذوری سے دوچار خواتین کے حقوق کو قانوناً تسلیم کیا گیا ہے اور ان کا تحفظ کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔
مثلاً گیمبیا کا ویمنز ایکٹ 2010ء لازمی قرار دیتا ہے کہ وہ "معذوری سے دوچار خواتین کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے اور روزگار تک رسائی اور پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ فیصلہ سازی میں شرکت کے لیے بھی ان کی جسمانی، معاشی اور سماجی ضروریات پورا کرنے کا عہد کرتا ہے۔”
معذوروں کے حقوق کے حوالے سے کویت کا قانون 2010ء کسی معذوری سے دوچار خواتین کو زچگی پر اضافی سہولیات دیتا ہے۔
مالڈووا معذوری سے دوچار خواتین کی تولیدی صحت کی ضروریات کو تسلیم کرتا ہے، کہ جن میں امراضِ نسواں کے علاج اور خاندانی منصوبہ بندی پر مشاورت شامل ہیں۔
انڈونیشیا کا معذوروں کے لیے قانون 2016ء کسی معذوری کی شکار خواتین کو تشدد سے بچانے اور آسان رسائی رکھنے والے دارالامان فراہم کرنے کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔
جواب دیں