بھارت میں نچلی ذات کی خواتین پر جنسی تشدد کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور ایک نئی رپورٹ سامنے لا رہی ہے کہ کس طرح ان خواتین کو انصاف فراہم نہیں کیا جا رہا۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی انجمن ایکوالٹی ناؤ (Equality Now) نے ایک اور نچلی سطح کی تنظیم سوابھی مان سوسائٹی (Swabhiman Society) کے ساتھ مل کر ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس نے ریاست ہریانہ کی دلت برادری کی 40 خواتین کے ساتھ ہونے والے زیادتی کے واقعات کا جائزہ لیا ہے۔
دلت برادری بھارت کے ذات پات کے نظام میں سب سے نچلے درجے پر سمجھا جاتا ہے اور اونچی ذات کے مرد اس نظام مضبوط کرنے کے لیے جنسی تشدد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ماحول ایسا ہے کہ ایسے جرائم کرنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو بھی کریں، انہیں کھلی چھوٹ ہے، وہ ایک جرم کے باوجود دندناتے پھرتے ہیں اور زیادتی کی شکار خواتین کے اہلِ خانہ انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور۔
سوابھی مان سوسائٹی کی بانی منیشا مشال کہتی ہیں کہ "دلت خواتین کو انصاف کی فراہمی میں جو رکاوٹیں درپیش ہیں، انہیں معاشرے اور حکومت کے سامنے لانا ضروری ہے، تاکہ ذات پات کی بنیاد پر ظلم و تشدد کو سمجھا جائے، دلتوں کی آواز سنی جائے اور ایسے واقعات کا نشانہ بننے والی خواتین اور ان کے خاندانوں کو انصاف کی یقینی فراہمی کے لیے اجتماعی اقدامات اٹھائے جائیں۔”
سرکاری ڈیٹا کے مطابق بھارت میں روزانہ تقریباً 10 دلت خواتین اور لڑکیوں کو ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ عموماً ایسے واقعات کو رپورٹ نہیں کیا جاتا اور ایکوالٹی ناؤ کے مطابق اس جرم کے مرتکب شاذ ہی مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں۔ رپورٹ میں جن واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے ان میں سے صرف 10 فیصد ایسے تھے کہ جن میں مرتکب کو مجرم ٹھہرایا گیا، وہ بھی اس صورت میں کیونکہ جرم بہت ہی ہولناک تھے، جیسا کہ 6 سال سے کم عمر بچے کا قتل۔
ان جرائم کے مرتکب افراد عموماً گروہوں کی صورت میں کام کرتے ہیں اور گینگ ریپ اور قتل جیسی حرکات میں ملوث ہوتے ہیں۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ اگر ایسے جرائم کو رپورٹ بھی کیا جائے تو عموماً پولیس سرے سے پرچہ ہی نہیں کاٹتی، اور اگر کاٹ بھی لے تو تفتیش نہیں کرتی۔ ایسے کیس جن افسران کے ہاتھ آتے ہیں وہ الٹا شکار خزاتین کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں، انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ مقدمہ واپس لیں اور ان کو سرے سے ہی کمزور قرار دیتے ہیں یا دعویٰ کرتے ہیں کہ پرچہ کاٹنے کے لیے مزید شواہد پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی کسی نہ کسی طرح حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہ یہ معاملہ یہیں دب جائے۔
پھر خواتین کو بھی اپنے قانونی حقوق کی آگہی بھی نہیں ہوتی، انہیں سپورٹ سروسز تک رسائی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے حالانکہ ایسی خواتین کو نفسیاتی دیکھ بھال اور پولیس پروٹیکشن ملنی چاہیے، جو ان کا قانونی حق ہے۔
کئی مرتبہ تو ایسا ہوتا ہے کہ جنسی تشدد رپورٹ کرنے والی خواتین اور ان کے اہل خانہ کو مزید بدسلوکی کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مقدمہ آگے بڑھانے سے ہی ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ 60 فیصد معاملات میں عدالت سے باہر تصفیہ ہو جاتا ہے۔
ایکوالٹی ناؤ یوریشیا دفتر کی ڈائریکٹر جیکی ہنٹ کہتی ہے کہ ریپ کی شکار خواتین اور گواہوں کو دھمکیوں اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ رشوت تک پیش کی جاتی ہے۔ معاملہ شکار خاتون کو ذمہ دار ٹھیرانے کے کلچر سے مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے خواتین ان حملوں کو رپورٹ ہی نہیں کرتیں کیونکہ انہیں سماجی طور پر داغ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے اور یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں انصاف نہیں ملے گا۔
انصاف کی فراہمی کے عمل میں گاؤں کی پنچائتیں بھی رکاوٹ بنتی ہیں، جو اپنی طاقت کا استعمال کرکے ایسی خواتین اور ان کے خاندانوں کو ڈرا دھمکا کو مجبور کرتی ہیں اور رپورٹ کے مطابق تقریباً 80 فیصد واقعات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
ہنٹ نے کہا کہ دلت خواتین پر جنسی تشدد کے اس چکر کو ختم کرنے، مرتکب افراد کو کھلی چھوٹ کے خاتمے اور پولیس اور مقدمے کی پیروی کرنے والوں کی جانب سے ان معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کی سخت ضرورت ہے۔
رپورٹ میں ذات پات کی بنیاد پر جنسی تشدد سے نمٹنے کے لیے ریاستی و قومی سطح پر سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں۔ دونوں انجمنوں نے جنسی تشدد کو کسی صورت برداشت نہ کرنے، بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کے عہد پورے کرنے اور سول سوسائٹی کی انجمنوں کو ذات پات اور صنف کے معاملات سے نمٹنے میں مدد کے مطالبات کیے ہیں۔
جواب دیں