20سالہ فاطمہ (فرضی نام) افغانستان کے صوبے کاپیسا کے ضلع کوہستان میں جبری شادی کی شکار ہوئیں۔ انہیں دو سال پہلے ایک بوڑھے سے زبردستی بیاہ دیا گیا، یوں اسکول چھوٹ گیا کیونکہ شوہر نہ صرف تعلیم کی اجازت نہیں دیتا تھا بلکہ اس نے مسلسل جسمانی اور ذہنی تشدد بھی کیا۔
چار مہینے پہلے جب کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں گھریلو تشدد کی بھی ایک لہر پیدا ہوئی، افغان غریب گھرانے خاص طور پر برے حالات کا شکار ہوئے۔ فاطمہ کو اپنے شوہر کے ہاتھوں اتنے بھیانک تشدد کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کی بائیں آنکھ اور ناک سخت زخمی ہو گئی۔ یہ اتنے شدید زخم تھے کہ مدد کے لیے فاطمہ کو پولیس کا رخ کرنا پڑا، لیکن پولیس نے اس معاملے میں مداخلت سے انکار کر دیا اور جب شوہر کو پتہ چلا کہ اس نے پولیس نے مدد مانگی ہے، تو اس کا نتیجہ ٹانگ بھی ٹوٹنے کی صورت میں نکلا۔
فاطمہ 15 دن تک ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ شدید تکلیف کا شکار رہی، یہاں تک کہ اس کا چلنا بھی دوبھر ہو گیا۔ جب تکلیف بہت شدید ہو گئی تو بالآخر اسے کاپیسا کے سرکاری ہسپتال لایا گیا، جہاں عملے کو پتہ چلا کہ فاطمہ پر دراصل تشدد کیا گیا اور یہاں سے انہیں وہ مدد ملی، جس کی انہیں تلاش تھی۔
فاطمہ کو ہسپتال میں موجود فیملی پروٹیکشن سینٹر منتقل کیا گیا، جہاں ان کو طبی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اور قانونی مدد بھی دی گئی۔ سینٹر نے انہیں فیملی رسپانس یونٹ کے حوالے کیا، جو پولیس کے ماتحت کام کرتا ہے اور گھریلو تشدد کے معاملات کو دیکھتا ہے۔ اس یونٹ نے فاطمہ کے معاملے کا جائزہ لیا اور شوہر کو گرفتار بھی کیا۔
یوں فاطمہ کی آواز پہلی بار سنی گئی۔ ان کی ذہنی صحت بھی بہتر ہوئی، اور خودکشی کے خیالات اور خوف میں بھی کمی آئی۔
فیملی پروٹیکشن سینٹر فاطمہ کے خاندان، سسرال، محکمہ امور خواتین اور محکمہ انصاف کے ساتھ بھی مشاورت کر چکا ہے۔ ان ملاقاتوں میں فاطمہ نے پہلی بار دیکھا کہ اس کے والد اس کے حق میں کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہم وہ کریں گے، جو فاطمہ چاہے گی۔ سالہا سال تک میں اپنی بیٹی پر ظلم و ستم کو برداشت کرتا رہا، اب ایسا نہیں ہوگا۔”
بالآخر فاطمہ نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے شوہر سے خلع لے گی۔
ایک نئی زندگی کے خواب کے ساتھ وہ اپنےبچوں سمیت والدین کے گھر واپس آ گئی۔ کچھ ہی عرصے میں اس کی نئی جگہ منگنی ہو گئی اور ایک نوعمر بڑھئی کے ساتھ شادی بھی، جو فاطمہ کے خوابوں کے عین مطابق ہے۔ اب وہ اسکول بھی جاتی ہیں اور ایک محبت کرنے والے شوہر کے ساتھ ایک بے خوف زندگی گزار رہی ہیں۔
اپنے جیون ساتھی کے ہاتھوں مارپیٹ کا بھی خطرہ بھی نہیں کہ جو افغانستان میں عام ہے۔ 2015ء کے ایک سروے کے مطابق 15 سے 49سال کی شادی شدہ افغان خواتین میں سے 56 فیصد کو اپنے جیون ساتھی کے ہاتھوں ہی جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے بڑے شہروں میں لگنے والے لاک ڈاؤن سے گھریلو تشدد کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے اور معاملہ اس لیے بھی سنگین صورت اختیار کر گیا کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے خواتین کو امدادی مراکز سے رابطوں میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔
جواب دیں