کراچی کی 40 سالہ شمیم بانو روزانہ 12 گھنٹے کام کرتی ہیں۔ ایک طرف سلے ہوئے کپڑوں کے اضافی دھاگے کاٹنے کا کام اور دوسری طرف اسکول میں بیچنے کے لیے سموسے بنانے کا کام۔ اتنی محنت کے باوجود وہ معمولی آمدنی ہی حاصل کر پاتی ہیں اور اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ کہ انہیں کوئی سوشل سکیورٹی حاصل نہیں اور نہ کوئی پنشن کی سہولت کیونکہ گھر پر کام کرنے والے ان جیسے کارکن افرادی قوت کا حصہ نہیں سمجھے جاتے۔
گھروں سے کام کرنے والی غیر رسمی افرادی قوت کا بڑا حصہ خواتین پر مشتمل ہے لیکن شمیم بانو ان میں ذرا نمایاں ہو گئی ہیں، کیونکہ ایک نئے قانون کی بدولت وہ پہلی خاتون بن گئی ہیں کہ جنہیں باقاعدہ طور پر مزدور شمار کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں لاگو ہونے والا نیا قانون ہے جو 30 لاکھ ایسے افراد کو بھی ملازمین والے حقوق دے گا، جو غیر رسمی افرادی قوت سے تعلق رکھتے ہیں۔
سندھ نے 2018ء میں گھروں سے کام کرنے والوں کے لیے ایک قانون کی منظوری دی تھی، جس کے ساتھ پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک بن گیا کہ جہاں گھریلو کارکنوں کو بھی باضابطہ طور پر افرادی قوت کا حصہ تسلیم کیا گیا۔ گو کہ ملک کے باقی تین صوبوں نے اب تک اس قانون کی پیروی نہیں حالانکہ ایک اندازے کے مطابق ملک میں ایسے 12 ملین لوگ موجود ہیں جو گھروں سے کام کرتے ہیں، جیسا کہ کپڑے سینا، جوتے بنانا اور دست کاری وغیرہ۔ ان میں سے 80 فیصد گھریلو کارکن خواتین ہی ہیں۔
زراعت کے شعبے سے ہٹ کر دیکھیں تو غیر رسمی افرادی قوت کا معیشت میں نمایاں حصہ ہے۔ دیہی علاقوں میں 75 فیصد لوگ افرادی قوت کا غیر رسمی حصہ سمجھے جاتے ہیں۔
کراچی میں یونائیٹڈ ہوم بیسڈ گارمنٹ ورکرز یونین کے دفتر میں شمیم بانو وہ پہلی خاتون بنیں کہ جو سندھ میں گھر سے کام کرنے والی خاتون کے طور پر صوبائی وزارتِ محنت میں رجسٹر ہوئی ہیں۔ اب انہیں وہ فوائد حاصل ہوں گے جو عام مزدوروں کو ملتے ہیں، سماجی تحفظ، طبی سہولیات اور خواتین کو ملنے والی خصوصی رعایتیں۔ شادیوں اور وفات کی صورت میں بھی انہیں سرکاری گرانٹ ملے گی۔ وہ کہتی ہیں کہ "مجھے نہیں معلوم کہ اس کا مجھے فائدہ حاصل بھی ہوگا، لیکن اطمینان ضرور ہے کہ اس جدوجہد میں میں سب سے آگے ہوں۔” شمیم بانو اپنے شوہر، دو بیٹیوں، ایک بیٹے، ایک بہو اور ان کے تین بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "اس مقام تک پہنچنے سے بھی اچھا یہ ہے کہ میں اپنی بیٹیوں سمیت کئی خواتین کا مستقبل بنانے کے قابل بنی۔”
لیکن یہ سفر بہت لمبا تھا۔ ہوم-بیسڈ ویمن ورکرز فیڈریشن اپنے 3,500 اراکین کے لیے جدوجہد کر رہی ہے جو 2009ء سے سوشل سکیورٹی فوائد حاصل کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ فیڈریشن کی جنرل سیکریٹری زہرہ خان کہتی ہیں کہ اس رجسٹریشن نے ثابت کیا ہے کہ جب بکھرے ہوئے مزدور، خاص طور پر خواتین، خود کو منظم کر لیں تو وہ پہاڑوں کو بھی ہلا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رجسٹریشن کا یہ عمل گھروں سے کام کرنے والے کارکنوں کی حقیقی تعداد سامنے لائے گا۔
رجسٹریشن فارم پُر کرتے ہوئے فیڈریشن کی جنرل سیکریٹری 36 سالہ سائرہ فیروز نے کہا کہ "اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ ہمیں کام کرنے والے کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے گا۔ یہ ایک دُور پرے کا خواب لگتا تھا۔”
رجسٹریشن کا عمل اگست میں شروع ہونا تھا لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی۔ اب یونین پوری کوشش کر رہی ہے کہ اس ضائع ہونے والے وقت کی تلافی ہو سکے۔ سائرہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی طرف سے کام کا آغاز کر دیا ہے، فارم بھرے جا رہے ہیں اور انہیں وزارت محنت کے حوالے کیا جا رہا ہے۔
لیکن رجسٹریشن میں تاخیر کا ایک نقصان ضرور ہوا، کرونا وائرس لاک ڈاؤن کی وجہ سے حکومت نے ہنگامی طور پر نقد امداد کا جو پروگرام شروع کیا تھا، یہ کارکن اس کو پانے کی اہل نہیں ہو سکیں۔ یہ ان کارکنوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا۔ خود شمیم بانو کے لیے بھی کہ جن کے شوہر ایک ٹھیلا لگاتے تھے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسے بند کرنا پڑا۔ ان کی صاحبزادی سمیرا اعظم نے بتایا کہ کام نہیں ہے۔ راشن خریدنے کے لیے ادھار تک لینا پڑا۔ اپریل سے گھر کا کرایہ بھی نہیں دیا، جو 7 ہزار روپے ماہانہ ہے اور بجلی اور گیس کے بل بھی ادا نہیں ہو سکے۔
یونین کی صدر زاہدہ پروین کہتی ہیں کہ کئی گھریلو کارکنوں کی زندگی پہلے ہی مشکل تھی، لیکن مارچ میں جیسے ہی زندگی کا پہیہ تھم گیا، ان کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ اب کووِڈ-19 کی دوسری لہر آ چکی ہے، افراطِ زرکی شرح آسمان سے باتیں کر رہی ہے، خاص طور پر کھانے پینے کی چیزیں بہت مہنگی ہو گئی ہیں اور میرا نہیں خیال کہ مدد کے لیے اس حکومت کا کوئی آسرا ہے۔ اگر رجسٹریشن کا عمل تاخیر کا شکار نہ ہوتا، تو کئی کارکن حکومت کی ہنگامی نقد امداد کے پروگرام کے اہل ہو جاتے۔”
جواب دیں