آن لائن دنیا میں خواتین صحافیوں کو جس سخت ردعمل اور پرتشدد رویّے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اب وہ ان کی حقیقی زندگی میں بھی داخل ہو رہا ہے اور اس کے اثرات بھیانک بلکہ مہلک ہیں۔
ایک نئے گلوبل سروے میں میڈیا سے وابستہ 1,210 بین الاقوامی کارکنوں سے سوالات کیے گئے جن میں سے 73 فیصد، یعنی تقریباً تین چوتھائی خواتین نے کہا کہ انہیں آن لائن برا بھلا کہا گیا اور دھمکایا بھی گیا ہے، لیکن سروے میں شامل 20 فیصد خواتین نے کہا کہ آن لائن دنیا سے ہٹ کر آف لائن دنیا میں بھی پرتشدد رویّے اور ایسے حملوں کا سامنا کرنا پڑا کہ جو اُن کے خیال میں آن لائن پرتشدد رویّے سے ہی تعلق رکھتا تھا۔
انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس ـ(ICFJ) اور اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی و ثقافتی انجمن (یونیسکو) کی جانب سے رواں ماہ کیا گیا ہے، جس کے مطابق آن لائن دنیا میں پرتشدد رویہ ایک نیا محاذ ہے اور یہ خاص طور پر خواتین کے لیے بہت خطرناک ہے۔ ڈجیٹل دنیا میں خواتین صحافیوں پر اُن کے کام کی وجہ سے حملوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خاص طور پر نفرت انگیزی اور غلط معلومات کے ذریعے کہ جس کے ساتھ معاملہ ہراساں کرنے، دھاوا بولنے اور گالم گلوچ تک پہنچ جاتا ہے کہ جنہیں خاتون صحافیوں کو خاموش کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
عورت سے نفرت اور آن لائن دنیا میں اس کےخلاف پُرتشدد رویّہ اس ڈجیٹل دور میں خواتین کی صحافت میں شمولیت اور عوامی رابطوں کے لیے حقیقی خطرہ ہیں۔ یہ صنفی برابری کی جدوجہد بھی ہے اور آزادئ اظہار کا بحران بھی، جسے سب کو سنجیدہ لینا چاہیے۔
سروے میں کئی شواہد پیش کیے گئے ہیں کہ خواتین صحافیوں کے خلاف آن لائن پر تشدد رویہ اب آف لائن یعنی حقیقی دنیا میں بھی تشدد کے روپ میں آ رہا ہے۔ تنقیدی صحافت کو خاموش کرانے کے لیے ہونے والے ان حقیقی حملوں کے اثرات کبھی کبھار مہلک بھی ہوتے ہیں۔
2017ء میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے بتایا تھا کہ قتل ہونے والے کم از کم 40 فیصد صحافیوں کو مارے جانے سے پہلے آن لائن قتل کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔
اسی سال دنیا کے دو حصوں میں دو خواتین صحافیوں کو قتل کیا گیا، ایک مالٹا کی مشہور تحقیقی صحافی ڈیفنی کاروانا گیلیزیا اور دوسری بھارت کی گوری لنکش۔ دونوں کے قتل سے پہلے ان پر بڑے پیمانے پر آن لائن حملے ہوئے تھے اور پھر صرف چھ ہفتوں کے فرق سے دونوں کو قتل کر دیا گیا۔
گوری لنکش کے قتل سے، جو دائیں بازو کے شدت پسندوں کی جانب سے آن لائن پرتشدد رویّے سے جڑا ہوا تھا، ایک اور بھارتی خاتون صحافی کو لاحق خطرات نمایاں ہوئے، جو حکومت کی کھلی مخالف ہیں، یعنی رانا ایوب۔ انہیں آن لائن ریپ اور موت کی دھمکیاں دی گئیں، وہ بھی ہزار ہا کی تعداد میں، ساتھ ہی ان کی تنقیدی رپورٹنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر جعلی خبریں پھیلائی گئیں تاکہ انہیں غلط معلومات پھیلانے والا قرار دیا جائے اور ان کی زندگی کو مزید خطرے سے دوچار کیا جائے۔
صورت حال اس نہج تک جا پہنچی ہے کہ اقوامِ متحدہ کے پانچ خصوصی نمائندوں نے بھارت کے سیاسی رہنماؤں سے مطالبہ کیا ہے کہ رانا ایوب کی حفاظت کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ "رانا ایوب کی زندگی کو لاحق خطرات پر سخت تشویش ہے، جو اس وقت ان دھمکیوں کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہیں۔”
خواتین پر جسمانی تشدد کرونا وائرس کی وباء کے ساتھ ساتھ ویسے ہی بڑھتا جا رہا ہے۔ اسی دوران خواتین صحافیوں کے خلاف پرتشدد رویّے میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ICFJ اور کولمبیا یونیورسٹی کے ٹاؤ سینٹر فار ڈجیٹل جرنلزم نے صحافت اور وباء کے حوالے سے رواں سال کے اوائل میں ایک سروے کیا تھا، جس میں جواب دینے والی 16 فیصد خواتین نے کہا کہ آن لائن گالم گلوچ اور ہراساں کرنے کی شرح اب معمول سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔
یہ نتائج اس وبائی دور میں صحافیوں کے خلاف پرتشدد رویّے میں اضافے کو ظاہر کرتے ہیں کہ جنہیں عوامیت پسند (populist) اور مطلق العنان سیاست دان بھڑکا رہے ہیں ۔ اس سروے میں ہر 10 میں سے 1 نے کہا کہ اسے وباء کے ابتدائی تین مہینوں میں کسی سیاست دان یا منتخب نمائندے کی جانب سے آن لائن یا آف لائن خراب برتاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
محتلف تحقیق سے پتہ چلایا ہے کہ 2016ء سے اب تک کئی خواتین نے فرنٹ لائن رپورٹنگ سے انکار کیا ہے، خود کو عوامی آن لائن گفتگو سے دُور کر لیا ہے، ملازمتیں چھوڑ دی ہیں یا پھر صحافت ہی ترک کر دی ہے، کیوں؟ صرف اور صرف آن لائن پرتشدد رویّے کے تجربے کی وجہ سے۔ لیکن یہاں کئی واقعات ایسے بھی ہیں کہ خواتین صحافیوں نے آن لائن رویّے کے خلاف بھرپور ردعمل دکھایا ہے، سر جھکانے یا خاموش بیٹھنے سے انکار کیا ہے، یہاں تک جم کر بولنے کی وجہ سے وہ مزید بڑا ہدف بن گئی ہیں۔
ہمیں معلوم ہے کہ آن لائن دھمکیوں کے بعد خواتین صحافیوں پر باقاعدہ حملے بھی ہوتے ہیں۔ یہ جسمانی یا جنسی حملے بلکہ قتل بھی ہو سکتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ڈجیٹل سکیورٹی پر حملے بھی ان کو مزید خطرات سے دوچار کر سکتے ہیں، جن میں نفسیاتی اثرات بھی شامل ہیں۔
جب کسی خاتون صحافی کوآن لائن پرتشدد رویے کا سامنا ہو تو اس معاملے کو بہت سنجیدہ لینا چاہیے۔ انہیں جسمانی حفاظت کے لیے مدد کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مدد اور ڈجیٹل سکیورٹی کی تربیت بھی حاصل کرنی چاہیے۔ یہی نہیں بلکہ ان کے ایڈیٹوریل مینیجرز کی جانب سے بھی انہیں بھرپور سپورٹ ملنی چاہیے، جو عملے کو بتائے کہ یہ معاملہ سنجیدہ ہے اور اسپر فیصلہ کن کارروائی ہونی چاہیے، جس میں قانونی معاملات بھی شامل ہیں۔
ہمیں ایسی کوئی بھی تجویز دیتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے کہ خواتین صحافیوں کو بھی ذرا لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ڈھیٹ بن جانا چاہیے۔ حقیقت میں یہ زور خواتین پر نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس طرح ہم ان سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جسمانی ہراسگی اور جنسی حملے تو خواتین کے لیے اس کیریئر میں عام اور قابلِ قبول خطرات ہیں، اس کے بجائے ان معاملات کی ذمہ داری لینی چاہیے تاکہ خواتین صحافیوں کی حفاظت ہو سکے۔
اس سنگین معاملے کا حل اس نظام کی تبدیلی ہے جس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کایہ ایکو سسٹم کام کرتا ہے۔ اسے آن لائن نفرت انگیزی سے نمٹنے اور خاص طور پر صحافیوں پر ممکنہ حملوں سے بچانے کے لیے ڈیزائن کیا جائے۔ اس کے لیے بڑے اور طاقتور سوشل میڈیا اداروں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہوگا، پوری شفافیت کے ساتھ اور غلط معلومات اور نفرت انگیزی کو روکتے ہوئے۔
یعنی ان سوشل میڈیا کمپنیوں کو سمجھنا ہوگا کہ وہ بھی خبروں کے ناشر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یوں وہ قارئین کے لیے معلومات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے، حقائق دیکھیں گے اور نفرت انگیزی کے خلاف معیارات مرتب کریں گے۔
بڑے ٹیکنالوجی ادارے، نیوز رومز، سول سوسائٹی ادارے، تحقیقی ادارے، پالیسی ساز اور قانونی و عدالتی برادریاں باہمی تعاون سے آگے بڑھیں گی تو ہی کچھ قدم اٹھائے جا سکتے ہیں۔
جواب دیں