کرونا وائرس کے ساتھ ایک نئی وباء، خواتین پر تشدد اپنے عروج پر پہنچ گیا

رواں سال کرونا وائرس کی وباء کے خلاف دنیا بھر میں سخت اقدامات اٹھائے گئے، لیکن ان کے ساتھ ہی ایک نئی وباء نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا، عورتوں اور بچوں پر گھریلو تشدد کی وباء نے۔

خواتین اور بچوں نے خود کو بدترین صورت حال کا شکار پایا کہ جس میں وہ خود پر مظالم ڈھانے والے شخص کے ساتھ ایک جگہ پر ہی قید سے ہو گئے، باہر کے کسی ساتھی کی مدد اور اس حوالے سے درکار خدمات سے بھی محروم یعنی عین اس وقت جب مدد کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، اتنی ہی زیادہ رکاوٹیں سامنے کھڑی ہو گئیں۔

وباء سے سماجی و معاشی طور پر جو تباہی پھیلی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان معاملات نے بھی لاکھوں بچوں اور عورتوں کو مشکل صورت حال میں ڈال دیا ہے۔ عورتوں پر تشدد ایک بڑا مسئلہ ہے کہ جس کی شرح میں حیران کن اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا میں ہر 3 میں سے 1 عورت کو زندگی میں کسی نہ کسی وقت اپنے ساتھی کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ لیکن کرونا وائرس لاک ڈاؤن نے تو ان واقعات میں کہیں اضافہ کر دیا ہے۔ جیسا کہ ارجنٹینا میں 20 سے 31 مارچ 2020ء کے دوران 144 ہیلپ لائن پر روزانہ آنے والی کالز میں 39 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسی طرح میکسیکو میں ایمرجنسی کالز میں 2020ء کے ابتدائی چار مہینوں میں 53 فیصد اضافہ ہوا۔ مارچ اور اپریل 2020ء میں تو شکایت کرنے والی خواتین کی تعداد میں 2019ء کے مقابلے میں 77 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔

وباء کی وجہ سے لاک ڈاؤن، بے روزگاری، معاشی عدم استحکام اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے تشدد کے عادی افراد کی بدسلوکی میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پھر خواتین کی طبّی مشاورت اور قانونی ذرائع تک رسائی بھی محدود ہو رہی ہے۔ اس صورت حال میں کہ جب تشدد کی شکار خواتین سماجی مدد کے ذرائع سے دُور ہوں، طبی سہولیات تک عدم رسائی کی وجہ سے ان کی صحت پر مضر اثرات بھی مرتب ہوں تو تشدد کے خطرات میں کافی اضافہ ہو جاتا ہے۔

دنیا کی نظریں اس وقت وباء پر جمی ہوئی ہیں اور تشدد کرنے والوں کو گویا کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ جو خواتین زیادہ مجبور ہیں، جیسا کہ بزرگ، معذور، مہاجر، بے گھر یا تارکِ وطن، دیہی خواتین اور جو کچی آبادیوں وغیرہ میں رہتی ہیں، وہ تو زیادہ خطرے سے دوچار ہیں کیونکہ ان کی راہ میں تو اور بھی کئی رکاوٹیں ہیں۔

جب سے وباء شروع ہوئی ہے اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خواتین یو این-ویمن بین الاقوامی برادری، حکومتوں، نجی شعبے اور سول سوسائٹی سے مطالبہ کر رہا ہے کہ اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی مہمات میں اضافہ کیا جائے، اپنی خدمات بھرپور انداز میں ایسی خواتین تک پہنچائی جائیں اور خواتین پر تشدد کو کسی صورت برداشت نہ کیا جائے۔

اس حوالے سے اسکولوں کی سطح پر سرمایہ کاری کرنے، مقامی برادری کو متحرک کرنے، مردوں اور لڑکوں کے ساتھ مل کر کام کرنے اور صحت مند اور برابری کی بنیاد پر تعلقات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں، عورتوں کو بااختیار بنانے کے پروگرام کے اثرات پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے اور سب سے اہم بات کہ تشدد کے مرتکب افراد کھلی چھوٹ نہیں ملنی چاہیے۔

خواتین پر تشدد عرصہ دراز سے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے نتائج بہت دُور اثر اور شدید ہوتے ہیں۔ تشدد کے شکار فرد کی جسمانی و ذہنی صحت پر بھیانک اثرات مرتب ہوتے ہیں، بلکہ اس کے خاندان، برادری اور قومی معیشت پر بھی بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے جہاں اداروں کی کمی ہے اور قانون کمزور ہے، وہیں ایسی سماجی اقدار بھی موجود ہیں جو تشدد کے ذریعے تربیت کرنے کے رویے کو نظر انداز کرتی ہیں۔ مردانگی کے رعب کو سہارا دیتی ہیں، خاندان کی عزت کا بہانہ بناتی ہیں بلکہ الٹا تشدد کے شکار فرد کو ہی مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔ یہ سب مل کر صنفی عدم مساوات کو دوام دیتے ہیں۔

پھر جنہیں بچپن میں جسمانی، جنسی یا جذباتی استحصال کا سامنا کرنا پڑا ہو، ان کے ایسے تشدد میں ملوث ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ لڑکے، لڑکیاں جن کے سامنے گھریلو تشدد کیا جاتا ہے، وہ بڑے ہوکر سخت گیر والدین کا روپ دھار لیتے ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ بھی وہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ پھر ان کے بچے بھی اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہیں، یوں عورتوں اور بچوں کے خلاف گھریلو تشدد کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ نسل تک نسل چلتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس گھر چکر کا خاتمہ ہو۔

عورتوں پر تشدد ہمارے کلچر کا حصہ نہیں ہے، اسے روکا جا سکتا ہے اور روکا جانا چاہیے۔ گزشتہ دہائی میں کچھ پیش رفت ضرور ہوئی ہے لیکن اب بھی 2030ء کے اہداف حاصل کرنے کے لیے بہت سفر باقی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے